حج کی روانگی یا خوشی کے موقع پر گلپوشی یا دعوت کا اہتمام کرنا

حضرت مولانامفتی محمد عظیم الدینمفتی جامعہ نظامیہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی خوشی کے موقع پر یا کسی کے حج کی روانگی کے وقت گلپوشی کرنا یا دعوت کا اہمتام کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : ہر انسان کو اپنے دور حیات میں دو کیفیتوں سے سابقہ ہوتا ہے ایک رنج و غم، دوسرا مسرت و خوشی، اظہار رنج و غم ہو یا اظہار مسرت دونوں میں انسان کو چاہئے کہ اعتدال کی راہ اختیار کرے یعنی رنج و غم کا اظہار ایسا نہ ہوکہ طغیان اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی پر دلالت کرے اسی طرح فرحت و مسرت کے اظہار کے وقت بھی ایسی راہ اختیار کرے جو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کا سبب ہو جیساکہ اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے : ما أصاب من مصیبۃ فی الأرض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل أن نبرأھا … لکیلا تأسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اٰتکم واﷲ لا یحب کل مختال فخور۔ {سورۃ الحدید، آیت ۲۲،۲۳} صاحب مدارک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں {لکیلا تأسوا} تحزنوا حزنا یطغیکم … {ولاتفرحوا} فرح المختال الفخور… ولکن ینبغی ان یکون الفرح شکرا والحزن صبرا، وانما یذم من الحزن الجزع المنافی للصبر، ومن الفرح الأشر المطغی الملھی عن الشکر۔بنا بریں اظہار مسرت کے موقع پر گلپوشی کریں یا گلدستہ پیش کریں، بشرطیکہ ریاء و سمعہ سے عاری ہو اور اسراف کی حد تک نہ پہنچتی ہو تو یہ فعل مباح ہے شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔
حج ِبدل
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ حج بدل کا جواز کس صورت میں ہوگا۔ حج بدل کے سلسلہ میں اگر کسی غیر حاجی وغیر مستطیع عالِمِ دین سے جو احکام ومناسکِ حج سے واقف ہو حج بدل کروایاجائے تو جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : ایسا شخص جس پرحج فرض ہے لیکن کسی مرض وغیرہ کیوجہ وہ زندگی میںسفر حج کے قابل نہیں ہے اپنی طرف سے، کسی مرحوم کے ورثاء اپنے مورث کی طرف سے حج بدل کروانا چاہیں تو حج بدل جائز ہے ( تقبل النیابۃ عند العجز فقط) لکن ( بشرط دوام العجز الی الموت ) لأنہ فرض العمر حتی تلزم الاعادۃ بزوال العذر … (فلا یجوز حج الغیر بغیر اذنہ الا اذا حج) أو أحج (الوارث عن مورثہ) الدر المختار جلد ۲ کتاب الحج باب الحج عن الغیر۔
۲ : حج بدل کے لئے ایسے عالم دین کو بھیجنا جو اپنی طرف سے حج ، مال کی عدم موجدگی کی وجہ ادا نہ کیا ہو ، جائز ہے (لکنہ یشترط) لصحۃ النیابۃ {أھلیۃ المأمور لصحۃ الأفعال} ثم فرع علیہ بقولہ (فجاز حج الصرورۃ ) بمھملۃ من لم یحج ۔ الدر المختار کتاب الحج باب الحج عن الغیر۔
حلتِّ نکاح
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اپنے والد کی منکوحہ ثانی {یعنی علاتی ماں} کی بہن سے نکاح کرنا چاہیں تو شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : شرعاً علاتی ماں کی بہن محرمات نکاح سے نہیں ہے اسلئے زید کا نکاح علاتی ماں کی بہن سے شرعاً جائز ہوگا۔ عالمگیری جلد اول ص ۲۷۷ میں ہے : لابأس بأن یتزوج الرجل امرأۃ و یتزوج ابنہ ا بنتھا أو امھا کذا فی محیط السرخسی۔ یعنی علاتی ماں کی ماں اور علاتی ماں کے پہلے شوہر کی لڑکی سے نکاح جائز ہے تو علاتی ماں کی بہن سے بھی جائز ہے۔