حج وعمرہ کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے مہمان

 

حج ایسا عظیم فرض ہے کہ اس کی فرضیت کے بعد اس سے پہلوتہی یا ٹال مٹول ناقابل معافی جرم ہے ۔ اگرچہ کہ کسی عذر سے اس کی ادائیگی میں تاخیر کی گنجائش دی گئی ہے لیکن بلاعذر قدرت کے باوجود حج نہ کرکے مرجانیوالے کے لئے سوئِ خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ حضرت سیدنا فاتح خیبر امیرالمؤمنین علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ جو شخص اپنے سرمایہ پر قادر ہوگیا کہ سفر میں اپنی اور گھر پر اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کو پورا کرسکے پھر بھی اس نے حج نہیں کیا تو اس کیلئے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ۔ ( ترمذی)
مسلم شریف میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا ’’اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہذا حج کرو ۔ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اﷲ کیا ہرسال حج کرنا فرض ہے ۔ آپ خاموش رہے ۔ اس شخص نے تین بار یہی پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم اس پر عمل نہ کرسکتے۔
حج ہر صاحب استطاعت ، مسلمان ، عاقل ، بالغ ، تندرست ، آزاد مرد و عورت پر جو بیت اﷲ شریف پہنچ سکتے ہوں عمر میں صرف ایک بار فرض ہے ۔ حج کا منکر دائرہ اسلام سے خارج اور حج کا تارک اور بلاعذر شرعی دیر کرنے والا سخت گنہگار ، فاسق وفاجر ہے ۔ دکھلاوے کیلئے حج کرنا اور مال حرام سے حج کو جانا حرام اور گناہ عظْم ہے ۔ ماں باپ اگر خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر حج فرض کو جانا مکروہ اور حج نفل میں والدین کی خدمت مقدم ہے ۔ ہاں وہ اگر اجازت دیں تو جائے ورنہ نہیں ۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ارکان اسلام میں سے کسی رکن کا ترک کردینا خروج عن الملت کے مشابہ ہے اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے تارک الصلوٰۃ کو مشرکین سے تشبیہ دی اور تارک حج کو یہودی اور نصرانی سے کیونکہ مشرکین حج کرتے تھے مگر نماز نہیں پڑھتے تھے اور یہود و نصاریٰ نماز پڑھتے تھے لیکن حج نہیں کرتے تھے ۔
حج کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس سے مسلمان بالکل پاکیزہ ہوجاتا ہے ۔ حج میں صرف رضائے الٰہی کو مدنظر رکھا جائے، کوئی دنیاوی لالچ اور غرض کو مقاصد حج میں شامل نہ کیا جائے ، کیوں کہ انسان جب حج کیلئے جاتا ہے تو وہاں شیطان دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا کرتا ہے ۔ کہیں دل میں فخر اور ریاکاری جنم لیتی ہے اور ہرممکن کوشش کرتا ہیکہ حاجی سے ایسے کام کرواؤں جن سے حج قبول نہ ہو ۔ لہذا برائیوں سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے ۔
’’حج مبرور کی جزاء جنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ‘‘ (مسلم شریف)
حضرت امام نووی ؒ نے حج مبرور کے بارے میں فرمایا کہ صحیح قول کے مطابق مبرور اُس حج کو کہتے ہیں جس میں گناہوں سے بچاگیا ہو اسی طرح مقبول کو بھی مبرور کہتے ہیں اور اس کی ظاہری علامت یہ ہے کہ حاجی کی دینی حالت اس سے بہتر ہوجائے جتنی حج سے پہلے تھی ۔ حج و عمرہ کرنے والے اﷲ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ دعا کریں تو قبول ہے اور اگر مغفرت چاہیں تو بخش دیتا ہے ۔ حج بیت اﷲ شریف کے فریضہ سے پہلے یا بعد حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ اطہر کی زیارت کیلئے جانا سعادت دارین ہیں۔

حافظ محمد ہاشم قادری
زیارت مدینہ منورہ و روضۂ اقدس ﷺ
قرآن پاک میں بارگاہ رسالت مآب ﷺ کی حاضری کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے بعد آپ کے پاس حاضر ہوجائیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رسول بھی ان کے لئے بخشش کی دعاکریں تو بلاشبہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پائیں گے‘‘(القرآن) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جو شخص حج کیلئے مکہ مکرمہ جائے اس کے بعد میری مسجد (مسجد نبوی) میں آئے تو اس کے لئے دو مبرور حجوں کاثواب ہوگا۔اس لئے جسے اللہ کے گھر جانے کی توفیق مل جائے اسے روضۂ اقدس کی زیارت سے بھی ضرور شرف یاب ہونا چاہئے ۔حج یا عمرہ کرنے کے بعدمدینہ طیبہ ، مسجد نبوی ، روضۂ رسول ﷺ کی حاضری حضور شفیع المذبنین کی شفاعت عظمیٰ کا ذریعہ بنے گی۔ روضہ ِ اقدس کی زیارت کرنا دین و دنیا میں سرخروئی کا موجب ہے۔ اس کی نسبت خود رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس کومدینہ تک پہنچنے کی وسعت ہو اور وہ میری زیارت کو نہ آئے (یعنی صرف حج کر کے چلا جائے) اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی ‘‘۔ نیزحضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت لازمی ہوگی۔ (دارقطنی، بیہقی) اس لئے ہر حاجی روضۂ رسول کی زیارت کو جائے اور روضۂ اقدس پر نظر پڑتے ہی الصلاۃ و و السلام علیک یا رسول اللہ سلام پیش کرے، درود پاک پڑھتا