آئندہ تین ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت میں گراوٹ کا امکان نہیں ، ڈالر کی شکل میں عازمین کے اخراجات کی ادائیگی
حیدرآباد۔2مئی (سیاست نیوز) حج بیت اللہ کے نام پر مسلمانوں کو صرف ہندستان میں نہیں لوٹا جا رہاہے بلکہ دنیا بھر میں اس مقدس سفر کو وسیع تجارت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ حج بیت اللہ کے آغاز سے 5تا6 ماہ قبل جس وقت عازمین حج کے لئے ہوٹلوں اور فضائی ٹکٹس کی بکنگ کے علاوہ دیگر اخراجات کی ادائیگی اور بیرون زرمبادلہ کی خریدی عمل میں لائی جا تی ہے اسی دوران عالمی سطح پر امریکی ڈالر کی قیمت میں بھاری اضافہ ریکارڈ کیا جا تا ہے کیونکہ عازمین حج کی جانب سے جو رقومات جمع کروائی جاتی ہیں ان رقومات کی ادائیگی بذریعہ ڈالر ہی ممکن بنائی جاتی ہے ۔ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہونے والے عازمین کی جانب سے روانگی سے کئی ماہ قبل رقومات ادا کردیتے ہیں جو ان ممالک کی حج کمیٹیوں کے پاس جمع ہوتی ہیں جن ممالک سے عازمین حج کا تعلق ہوتا ہے اور جب سعودی اداروں کے علاوہ ائیر لائنس و دیگر ضروریات کے لئے ادا شدنی رقم کی اجرائی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اس دوران ڈالر کی قیمت میں بھاری اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے ۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران اگر ڈالر کی قیمت میں آنے والے اتارچڑھاؤ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ حج بیت اللہ سے 3تا4ماہ قبل ڈالر کی قیمت میں بھاری اضافہ ریکارڈ کیا جا تا ہے اوراس کا بالواسطہ بوجھ عازمین پر ہی عائد کیا جا تا ہے کیونکہ زر مبادلہ میں آنے والی تبدیلی کی رقم حج کمیٹیوں کی جانب سے وصول کرلی جاتی ہیں۔ گذشتہ دنوں امریکی ڈالر کی قیمت میں بھاری استحکام ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ گذشتہ تین سال سے ڈالر کی قیمت انحطاط کاشکار تھی لیکن اب جبکہ معتمرین کی روانگی اور حج بیت اللہ کی بکنگ کی ادائیگی و فضائی ٹکٹ بک کروانے کا عمل جاری ہے ایسے میں امریکی ڈالر کی قیمت کو استحکام حاصل ہونے لگا ہے اور کہا جا رہاہے کہ آئندہ تین ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت میں کوئی گراوٹ کے آـثار نہیں ہیں ۔عالمی بازار کی صورتحال کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کے بیشتر تمام ممالک کی جانب سے ڈالر میں سعودی اداروں اور فضائی کمپنیو ںکو رقومات ادا کی جا تی ہیں جس کے نتیجہ میں ڈالر کی قیمت کو موسم حج کے دوران زبردست استحکام حاصل ہونے لگتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافہ کے اثرات عازمین حج پر مرتب ہونے لگتے ہیں ۔ عازمین حج پر معمولی رقم کا اثر ہونے کے سبب انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ زر مبادلہ کی قیمت میں کمی کے سبب انہیں کتنا نقصان پہنچا ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اگر تمام ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوگی کہ زر مبادلہ کے معمولی فرق کے ذریعہ بھی اربوں روپئے کی آمدنی کو یقینی بنایا جا تا ہے۔