حجاب جلدی امراض اور رہزنوں سے حفاظت کی ڈھال

برقعہ پہننے والی سہیلیاں ہشاش بشاش اور صاف ستھری رہتی ہیں ، غیر مسلم طالبہ کا اظہار خیال
حیدرآباد ۔ 3 ۔ اکٹوبر : ( نمائندہ خصوصی) : حجاب ، نقاب یا برقعہ اسلامی طرز لباس کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی اہمیت اور افادیت کا اعتراف اپنے تو اپنے غیر بھی کرنے پر مجبور ہیں ۔ حجاب جہاں خواتین کی عصمت و عفت کی حفاظت کا باعث بنتا ہے وہیں اسے استعمال کرنے والی خواتین جلدی امراض ، موسمی اثرات ، سڑک چھاپ فرہادوں کی بدنظری ، اور رہزنوں کا شکار بننے سے محفوظ رہتی ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ ملک کے ہر بڑے شہر میں ایسی غیر مسلم خواتین و طالبات نظر آتی ہیں جو اگرچہ مکمل حجاب نہیں کرتیں لیکن اپنے سر ، گلے اور ہاتھوں کو مکمل طور پر شال یا رنگین چادر کی طرح کپڑے سے ڈھانکے ہوئے بڑے سکون و اطمینان سے سڑکوں ، گلیوں سے گذرتی ، شاپنگ مالس یا بازاروں میں خریداری کرتی یا گاڑیاں دوڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ حیدرآباد جسے ہندوستان میں بلا شبہ تہذیب و تمدن اور شائستگی کا مرکز کہا جاسکتا ہے جہاں غیر مسلم خواتین و طالبات میں ’ نیم پردہ ‘ کا ایک نیا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے ۔ حجاب کے تئیں غیر مسلم خواتین و طالبات میں اس طرح کا احترام و اہتمام دیکھ کر ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ ان خواتین و طالبات سے بات کی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ آخر یہ نیم حجاب کیوں کررہی ہیں ؟ چنانچہ اس سلسلے میں نارائنا کالج کی طالبہ کویتا جو انٹرمیڈیٹ سال دوم میں زیر تعلیم ہے سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’ میرے چہرے پر کیل مہاسے حد سے زیادہ ہوگئے تھے ، جس کے بعد اسکین اسپیشلیسٹ سے رجوع ہونے پر انہوں نے ڈسٹ ( دھول ) پولیوشن ( آلودگی ) اور دھوپ کی تمازت سے بچنے کا مشورہ دیا ۔ ان کے مطابق چہرہ کھلا چھوڑ دینے سے سارے جسم میں جلدی الرجی پیدا ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے ۔ جس کے بعد اچانک میرے ذہن میں کالج کی برقعہ پوش مسلم طالبات کا خیال آیا اور غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ جتنی لڑکیاں برقعہ استعمال کرتی ہیں ان کے چہرے بالکل صاف ہیں ۔ چنانچہ میں نے بھی سر اور چہرے اور گلے کو مکمل طور پر ایک ملائم شال اور اوڑھنی سے ڈھانکنا شروع کیا ۔ جس سے کچھ دنوں میں ہی میں نے اپنے آپ میں کافی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی محسوس کیں ۔ کویتا کے مطابق اس نیم حجابی نے جیسے اسے بدل کرہی رکھ دیا اور ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات بھی اثر کرنا شروع کردیا ۔ کویتا نے کہا کہ ان کے ڈاکٹر کو خود حیرت ہوئی کہ Sensetive Skin کی حامل لڑکی کیسے اس قدر کم عرصے میں منفی اثرات سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ اسی طرح میں نے ایک اور طالبہ پرینکا وامی ( حقیقی نام مخفی ) سے بھی بات کی تو اس نے بتایا کہ سر اور گلے کو شال یا اوڑھنی سے ڈھانک لینے سے نہ صرف جلدی امراض سے حفاظت ہوتی ہے بلکہ رہزنوں سے بھی وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں پرینکا نے کہا کہ جب سے اس نے نیم حجاب کا استعمال شروع کیا ہے اس کا چہرہ بالکل صاف و شفاف رہتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑکے چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کرتے ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ گلے میں گولڈ چین پہننے پر Chain Snatchers کا خوف لگا رہتا تھا مگر اب بے خوف ہو کر پھرتی ہوں ۔ کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار اوشا رانی نامی خاتون نے کیا جن کا بیٹا اور وہ Asthama سے متاثر ہیں ۔ ڈاکٹروں نے اس کی اہم وجہ پولیوشن بتایا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے فوری اپنے سر اور چہرے کو شال سے ڈھانکنا شروع کردیا جس کے ساتھ ہی انہیں کافی آرام ملا ۔ اوشا رانی کے مطابق اس طرح کا پردہ ان کے لیے ایک غیر معمولی تحفہ ثابت ہوا ۔ اوشا رانی کے مطابق ان کا بیٹا بھی Nose Mask استعمال کررہا ہے ۔ بہر حال یہ تو حجاب کے حوالے سے غیر مسلم خواتین کے خیالات تھے مگر مسلمانوں میں خواتین کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو خود کو آزاد خیال اور تعلیم یافتہ تصور کرتا ہے ان کا خیال ہے برقعہ یا حجاب صرف غریب خواتین ہی پہنتی ہیں ۔ اگر وہ برقعہ استعمال کریں گی تو لوگ کیا کہیں گے ؟ ایک تعلیم یافتہ لڑکی کیسی حرکت کررہی ہے ۔ ایسی آزاد خیال خواتین یا لڑکیاں آزادی نسواں کے نام پر اتنا بہک جاتی ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ جو چست اور تنگ جینس اور ٹی شرٹ استعمال کررہی ہیں ۔ دراصل وہ مردوں کا لباس ہے اور ایسے خواتین پر اللہ کے نبی کریم ؐ نے نعت بھیجی ہے ۔ قارئین آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ رہزنی کے شکار ہونے والوں میں ایک بھی معاملہ برقعہ پوش خواتین کا نہیں ہوتا ہے کیوں کہ نقاب کی وجہ سے چین اڑانے والے کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ برقعہ کے اندر کونسا زیور موجود ہے ؟ اس کے علاوہ آوارہ منچلے نوجوان بھی سیٹیاں بجانے یا چھڑنے سے گریز کرتے ہیں ۔۔