حالات بگاڑنے کی سازشیں

راحتیں آجائیں گی دہلیز پر
آدمی سنبھلے اگر صدمات میں
حالات بگاڑنے کی سازشیں
ملک میں جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے فرقہ پرستوں کی جانب سے حالات کو بگاڑنے کی کوششیں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ کسی نہ کسی بہانے سے عوام کے ذہنوں میںفرقہ پرستی کا زہر گھول کر حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے ۔ محض شبہات اور الزامات کی بنیاد پر بے قصور افراد کاقتل کرنے کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے اور اس طرح کے واقعات تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔ ایک طرف محض گائے کا گوشت رکھنے کا جانور کی چوری کا شبہ کرتے ہوئے بے گناہوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب سناتن سنستھا جیسی تنظیموں کو خاموشی کے ساتھ پروان چڑھاتے ہوئے ان کے ذریعہ سماج میں دہشت اور خوف پھیلانے کا کام بھی کیا جا رہا ہے ۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف دلتوں اور آدی واسیوں اور سماج کے پچھڑے ہوئے طبقات کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کرنے کی منصوبہ بندی پر بھی عمل شروع ہوگیا ہے ۔ یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ حقوق انسانی کارکنوں نے مرکزی حکومت کو اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے ہتھیار خریدنے کا منصوبہ بنایا تھا اور پولیس کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ پولیس کے اس دعوی سے قطع نظر جہاں تک سناتن سنستھا کا سوال ہے اس کے کارکن کے ٹھکانوں پر چھاپے مارتے ہوئے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود ضبط کیا گیا ہے ۔ اس کے دوسرے کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے ۔ ان سے پوچھ تاچھ میں بھی کئی سنگین حقائق سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی پتہ چل چکا ہے کہ یہی تنظیم معقولیت پسندوں دھابولکر ‘ پنسارے ‘ کلبرگی اور گوری لنکیش کے قتل میں بھی ملوث رہے ہیں ۔ ان عناصر کے خلاف نہ تو کوئی سخت کارروائی ہو رہی ہے اور نہ ہی تحقیقات میں کوئی تیزی دکھائی جا رہی ہے ۔ کچھ مقامات پر تو سناتن سنستھا کے گرفتار دہشت گرد راوت کے حق میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں اس کے باوجود پولیس ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے اور خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دے رہی ہے ۔ یہ دوہرے معیارات ہیں۔اس سے تحقیقات میں پولیس کی سنجیدگی کے تعلق سے بھی شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف اترپردیش میں ایک اور بے قصور نوجوان کو گائے کی چوری کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ہے ۔ یہ ساری کارروائیاں مسلمانوں کے خلاف مختلف گوشوں کی جانب سے اگلے جانے والے زہر کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو انتہائی پراگندہ کردیا گیا ہے اور اب اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابات سے قبل ماحول کو مزید خراب کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ‘ وکلا پر شکنجہ کسا جا رہا ہے ۔ صحافیوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں بھی حاشیہ پر لانے کے اقدامات شدت اختیار کرچکے ہیںتاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صحافی حقائق کو سامنے لانے کی کوشش نہ کریں۔ ایک سینئر صحیفہ نگار راج دیپ سر دیسائی نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف بھی کرلیا ہے کہ صحافی آج کے دور میں کسی نہ کسی حد تک اپنی پیشہ ورانہ دیانت سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ ملک میں ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کو آگے بڑھانے اور مسلط کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ عوام کا جہاں تک سوال ہے انہیں محض جملوں میں الجھادیا گیا تھا اور اس کے بعد انہیں بھی فرقہ پرستانہ ذہنیت کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ انہیںان کے مسائل سے ہٹا کر نزاعی مسائل میں الجھایاجارہا ہے ۔ سماج میں ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں عوام کی توجہ حقیقی مسائل کی سمت مبذول ہی نہ ہونے پائے ۔
ملک میں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ روزآنہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور عوام کو اس کا احساس تک ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ نوٹ بندی کے مسائل ہنوز جاری ہیں۔ ملازمتوں کی صورتحال سنگین ہے ۔ رافیل اسکام میں ہزاروں کروڑ روپئے کے اسکام کے الزامات ہیں ‘ کروڑ پتی تاجروں کی دھوکہ دہی کے معاملات ہیں ‘ روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ سے الگ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ان سارے مسائل پر عوام کی توجہ مرکوز ہونے نہیں دی جا رہی ہے اور ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے ہیجان کی کیفیت پیدا کرنا ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ عوام کو اس سے چوکنا رہنے اور حقیقی مسائل پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔