طوفاں کے خلفشار میں کشتی رواں رہے
جب ڈوبنا ہی ہے تو کنارہ بھی کم نہیں
جی ایس ٹی اور عوام
گڈس اینڈ سرویس ٹیکس (GST) کے ذریعہ مرکزی حکومت نے ملک بھر میں ایک یکساں بڑا مارکٹ بنانے میں تعاون کرنے اور بدعنوانی و ٹیکس چوری کو روکنے کے عزم کے ساتھ ٹیکس اصلاحات کا قدم اٹھانے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اس ٹیکس نظام کے باعث 60 اشیاء پر ٹیکس کم ہوگا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے اس نئے ٹیکس نظام کو چھوٹے اور متوسط تاجروں کے لیے ناقابل فہم بناکر ایک بے چینی کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ مرکز کی مودی حکومت جب سے اقتدار پر ہے کالے دھن اور رشوت کے نام پر صرف عام آدمیوں کو ہی بوجھ برداشت کرنے والی پالیسیاں نافذ کررہی ہے ۔ مودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ جی ایس ٹی کے ذریعہ ہندوستان بھر میں ایک محصول ، ایک ملک اور ایک مارکٹ ہوگا ایک نئے مستقبل کے لیے جی ایس ٹی کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے والی حکومت نے اس کے منفی اثرات کو جس چالاکی سے پوشیدہ کردیا ہے اس کے نتائج آہستہ آہستہ غریب عوام کی جیپ ہلکی کرنے کی شکل میں سامنے آئیں گے ۔ جی ایس ٹی آنے سے پہلے ہی مارکٹ میں ترکاریوں کی قیمت بڑھا دی گئی ۔ سارے ملک میں ٹماٹر 70 تا 80 روپئے کیلو فروخت ہورہا ہے ۔ ہری مرچ 80 روپئے فی کیلو گرام دستیاب ہے ۔ جی ایس ٹی کے تحت ملک میں ہوٹل صنعت ، ٹکسٹائیل صنعت کے ساتھ دیگر شعبوں پر جو ٹیکس عائد کیا گیا ہے ، صنعتی گھرانوں نے خیر مقدم کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس سے ہندوستان کو دنیا بھر میں ایک مسابقتی معیشت میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا ۔ سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے جی ایس ٹی کے منفی اثرات کے دیرپا نتائج کی جانب نشاندہی کی ہے کیوں کہ جی ایس ٹی کو جس شکل میں متعارف کیا گیا ہے اس سے افراط زر میں اضافہ ہوگا جس کا ثبوت مارکٹ میں اچانک قیمتوں میں اضافہ سے ملتا ہے ۔ قیمتوں پر قابو پانے کے بہانے جی ایس ٹی لانے والی حکومت اب ان فیصلوں کو روکنے میں بے بس نظر آئے گی ۔ ملک کے متوسط اور غریب طبقات کو ہی نشانہ بنانے والی پالیسیوں کے باوجود یہ حکومت خود کو سال 2019 کے انتخابات کے لیے تیار کررہی ہے تو چھوٹے اور متوسط روزگار سے وابستہ کروڑہا افراد کا معاشی مستقبل اور روزگار کا مسئلہ مزید نازک و سنگین ہوجائے گا ۔ مرکز نے جی ایس ٹی کی معیاری شرح 18 فیصد طئے کیا ہے جب کہ یہ دیگر ممالک میں جی ایس ٹی شرح سے کہیں زیادہ ہے ۔ صرف عام آدمی پر بوجھ ڈالنے والے اقدامات کے ذریعہ آخر یہ حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے ۔ اس ٹیکس قانون کو عجلت پسندی سے نافذ کرنے سے آگے چل کر کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی ۔ کیوں کہ بیشتر ٹریڈرس اور تاجروں نے اب تک جی ایس ٹی کے لیے خود کو تیار نہیں کیا ہے ۔ انہیں جی ایس ٹی پر عمل آوری کے لیے مہلت دینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔ جی ایس ٹی کا فیصلہ مرکز اور ریاستی حکومتوں دونوں کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ، کونسل میں جب یہ فیصلہ کیا گیا ہے تو اس میں کئی ریاستوں نے اپنی مرضی ظاہر نہیں کی جیسا کہ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے کہا کہ جی ایس ٹی کو صرف نصف حمایت حاصل ہے ۔ حکومت نے ایک تماشہ کے ذریعہ جی ایس ٹی نافذ کرنے کی حماقت کی ہے ۔ بہر حال عوام کے ووٹوں کی طاقت کے ذریعہ مودی حکومت نے اپنی من مانی پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کردیا ہے ۔ شہریوں کے ووٹ اور میڈیا کی جب واہ واہ ہوتی ہے تو سیاستدانوں کے دماغ آسمان پر ہوتے ہیں ۔ اس کو ہی کامیابی کہتے ہیں لیکن اس کامیابی کے ثمر سے جب عوام الناس محروم ہوتے جاتے ہیں تو پھر ایک بار سیاسی ضرب لگانے کی تیاری ہوتی ہے ۔ اس مرتبہ عوام نے نوٹ بندی کی ضرب کھائی ہے اب جی ایس ٹی کے ذریعہ ٹیکس اصلاحات کے نام پر مختلف عنوانات سے دھکے کھائیں گے ۔ انسپکٹر راج کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت میں خود عوام دیکھیں گے کہ کس طرح انسپکٹر راج کا بول بالا ہورہا ہے ۔ حکومت کے پاس اب صرف دو سال رہ گئے ہیں ان دو سال میں جی ایس ٹی سے مربوط کسی بھی مسئلہ کو روبہ عمل لانے میں بہتری نہیں لائی گئی تو پھر عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعہ تبدیلی لانے پر غور کرنے کا موقع ملے گا ۔ حکومت کا تو دعویٰ ہے کہ وہ جی ایس ٹی کے ذریعہ عام آدمی کو راحت دے گی اور مہنگائی پر قابو پاتے ہوئے بدعنوانیوں کا خاتمہ کرے گی ۔ توقع تو یہی کی جاتی ہے کہ حکومت اپنے دعویٰ اور وعدے پر کامیاب ہوگی ۔۔