ریاض ۔6 جون ۔(سیاست ڈاٹ کام) یمن کے سابق صدر علی عبداﷲ صالح کے وفادار فورسیس نے سعودی عرب کے کئی سرحدی مقامات کو حملوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں سعودی عرب کے زیرقیادت عرب اتحادی افواج اور یمن کے باغی فورسیس کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑگئی جس میں کم سے کم چار سعودی اور درجنوں یمنی ہلاک ہوگئے ۔ سعودی عرب کے سرکاری خبررساں ادارہ نے عرب فوجی اتحاد کا یہ بیان جاری کیا جس میں سعودی عرب کے دو ضلعوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’’سعودی عرب کے مسلح افواج آج یمنی سرحد کی طرف سے کئے گئے حملے کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئے ‘‘۔ یمنی فورسیس نے دو سعودی ضلعوں جزان اور نجران کو حملوں کا نشانہ بنایا تھا ، بیان میں کہاگیا ہے کہ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یمن کے معزول صدر علی عبداﷲ صالح کے وفادار ریپبلکن گارڈز نے حوثی جنگجوؤں کی مدد سے انتہائی منظم ، مربوط اور منصوبہ بند انداز میں یہ حملہ کیا تھا ۔
سعودی عرب کا الزام ہے کہ یمن کے معزول صدر کے وفادار فورسیس اب ایرانی تائید یافتہ شیعہ حوثیوں کی مدد سے یمن کے معزول صدر عبدالربو منصور ہادی کے خلاف کئی ماہ سے جاری لڑائی میں ملوث ہوگئے ہیں۔ حوثیوں کی جنوبی یمن میں جاری پیشقدمی کو روکنے کیلئے سعودی عرب کے زیرقیادت عرب فوجی اتحاد نے 26 مارچ کو یمن پر فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا جس کے باوجود حوثیوں کے خلاف تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ اس لڑائی کے آغاز کے بعد اگرچہ سعودی عرب کے خلاف یمنی باغیوں کے تباہ کن حملوں اور سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رہا ہے لیکن عرب فوجی اتحاد نے گزشتہ روز سعودی علاقوں پر یمنی باغیوں کے حملہ کو دوسری بڑی لڑائی قرار دیا ہے ۔ عرب فوجی اتحاد نے اواخر اپریل کے دوران نجران میں یمنی باغیوں کے ایک حملے میں تین سعودیوں اور درجنوں یمنیوں کی ہلاکت کی خبر دی تھی ۔ اتحادی فورسیس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’گزشتہ روز کا حملہ ہماری سرحدوں میں دراندازی کے مقصد پر مبنی تھا لیکن اس کو ہیلی کاپٹر ، گن شپس، میزائیلس اور دیگر اسلحہ کی مدد سے عرب اتحادیوں نے ناکام بنادیا۔ یہ لڑائی کل صبح کی اولین ساعتوں میں شروع ہوئی تھی جو دوپہر تک جاری رہی ‘‘ ۔ علی عبداﷲ صالح جو 2011 ء تک اقتدار پر فائز رہے تھے گزشتہ سال نومبر سے اقوام متحدہ اور امریکہ میں تحدیدات کی فہرست میں شامل ہیں۔ علی عبداﷲ صالح کی حکمرانی کے دوران ان کے ایک فرزند اپنے ملک کی انتہائی طاقتور ریپبلکن گارڈز کے سربراہ تھے ۔