جہیز اور لین دین کی شناعت

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
اسلام نے مر دوں کو خواتین پر قوامیت عطا فر ما کر فضیلت دی ہے،چونکہ وہ اپنا مال خرچ کر نے کے مکلف بنائے گئے ہے(۴؍۳۴)عورت چونکہ خلقی طور پر نازک بنائی گئی ہے، فطری طو ر پر اس کی عفت و حیا اور اسکے تقدس کا تحفظ اسلام کو بہت عزیز ہے ، اس لئے عورت پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں لادا گیا، نکاح کے موقع پر مرد کو بطور مہر عورت کو مال دینے کا حکم دیا گیاہے نہ کہ عورتوں سے مال طلب کر نے کا، یہ کس قدر بے حیائی کی بات ہو گی کہ مہر جس کو شریعت نے مقرر کیا ہے اسکو تو ادھار رکھا جائے ، جہیز اور گھوڑے جو ڑے کے عنوان سے عورتوں سے نقد مال لیا جائے کہ جس کو شریعت نے مقرر نہیں کیا، قابل غور بات یہ ہے کہ ایسی عورت جس کونکاح میں بطور مہر کثیر مال دیا گیا ہو اس کو طلاق دے دی جائے تو اس سے مال مہر کو واپس لینے سے سخت منع کیا گیا ہے، ارشاد باری ہے ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو ان میں سے کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو تب بھی اس میں سے کچھ نہ لو ،اور کیا اس کے نا حق ہو نے اور کھلا گناہ ہو نے کے باوجود بھی تم لو گے اورتم وہ مال کیسے لوگے جب کہ تم نے ان سے تعلق قائم کیا ہے اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے(۴؍۲۱ )
نکاح کا رشتہ اگر توڑا جا رہا ہو تو اس کو دیا ہو ا مال واپس نہ لینے کی ہدایات دراصل’’ تسریح احسان‘‘ یعنی عمدہ انداز سے چھوڑنے کے حکم کی تعمیل ہے، نکاح کے موقع پر دیا گیا مال مہر جس کو مرد ہی نے دیا ہے نکاح ٹوٹنے کی صورت میں اس کے لینے کو پسند نہیں کیا گیاتو نکاح کر کے رشتہ جوڑتے وقت لڑکی کا مال لینااسلام کیسے پسند کر سکتا ہے ، اس آیت پاک میں ’’قنطار‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی مالِ کثیر کے آتے ہے، اس کاواپس لیناکھلا گناہ بتا یا گیا ہے ، صاحب غیرت افراد تو ظاہر ہے بیوی اور اس کے خاندان سے نہ کو ئی مال و زر طلب کر سکتے ہیں نہ اپنے خواہشا ت کی تکمیل کے لئے کسی طرح کا کوئی بوجھ لڑکی والوں پر ڈال سکتے ہیں۔

شادی بیاہ کے مواقع پر جو بے جا رسومات مسلم معاشرے میں در آئی ہیں وہ غیر اقوام کی دین ہے، مسلم معاشرے نے اپنے غیر اسلامی برادران وطن کی تہذیب کو اپنی معاشرتی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے ، اللہ کے نبی حضرت سیدنا محمدرسول اللہﷺ نے جاہلانہ سماج کے جن رسومات و خرافات کی بیخ کنی فر مائی تھی اس کو مسلم سماج نے اختیار کر کے پھر سے ان کی آبیاری کی ہے ، اب و ہ ناروا رسومات کے شجر اتنے برگ و بار لاچکے ہیں کہ ان کے مرجھانے اور ختم ہو نے کے آثار بظاہرنظرنہیں آرہے ہیں،مسلمان تو سماج و معاشرے سے خرافا ت کو دور کر نے اور ناروا رسومات کو مٹانے کے پا بند ہیں اس لئے عملی سطح پر مسلمانوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ، مسلم معاشرہ بے جا رسومات سے پاک نکاح کی محافل منعقد کر کے مسلم معاشرے کی اصلاح کے ساتھ دیگر اقوام کو بھی اسی طر ح کی سادگی اختیار کر نے کا پیغام دے سکتا ہے، اور اسلام کی فطری و سادہ تعلیمات کو ان کے قلوب میں رسوخ پانے کا ذریعہ بنا سکتا ہے ،ہو نا تو یہی چاہئے کہ مسلم معاشرے کی اسلامی چھاپ غیر مسلم معاشرے پر پڑے نہ کہ غیر مسلم سماج کی غیر اسلامی چھاپ مسلم معاشرہ قبول کرے ۔
ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کو تو ایک اہم رول ادا کر نا ہے، اور وہ اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا ہے ،تقریر و تحریر سے کہیں زیادہ مسلم معاشرے کواسلام کی تعلیمات پر عمل کر تے ہوئے غیر مسلم اقوام کو اسلام کی سادہ و فطری تعلیمات کا عملی پیغام دینا ہے،نکاح و شادی کا موقع بھی اسی اسلامی پیغام کو عام کر نے کا ہے۔

غیر اقوام کے ہاں جو لین دین ، گھوڑے جو ڑے جیسے رسومات کا چلن ہے وہ غیر آسمانی خود ساختہ مذہبی تعلیمات کا عکاس ہے، جن کے ہاں کو ئی آسمانی ہدایات کی روشنی نہیں ہے اور ان کے سارے طور طریق ان کی چاہت کے تابع ہیں،یہی وجہ ہیکہ لڑکی کا کسی لڑکے سے نکاح کرتے وقت ان کا ایک اعتقاد لڑکی کو دان میں دے دینے کا ہے، جس کو وہ ’’کنہیادان‘‘ سے تعبیر کر تے ہیں اور جو کچھ دینا ہو اس کو یہ سمجھ کر دے دیتے ہیں کہ آئندہ اسکو کچھ دینا نہیں ہے،اسی لئے وراثت سے ان کو محروم کر دیا جا تا ہے ،یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مسلم سماج نے اس کو بھی عملا قبول کر لیاہے ، گھوڑے جو ڑے ، لین دین کی لعنت میں مسلم معاشرہ گرفتار ہو نے کے ساتھ وراثت کے احکام میں بھی لڑکیوں کو وراثت سے محروم کر کے عملی طور پر غیر اقوام کی بنائی ہو ئی ڈگر پر چل رہا ہے، یہ عملی مشابہت بھی اسلامی احکامات سے دوری کا نتیجہ ہے ، جبکہ اللہ کے نبی حضرت سیدنا محمدرسول اللہﷺ نے غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنے کو سخت نا پسند کیا ہے ارشاد فرما یا جو کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہو گا ۔من تشبہ بقوم فھو منھم (شعب الایمان للبیھقی ، رقم الحدیث ۳۵۱۲، کنز العمال ؍رقم الحدیث ۴۲۶۸۰)

علمائے امت و زعمائے ملت اور دانشوارن قوم اس کاز کے لئے بر سوں سے محنت کر رہے ہیں،اورمحترم جناب زاہد علی خان صاحب حفظہ اللہ روزنامہ سیاست نے اس مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی اقدامات شروع کئے ہیں، اب مسلم سماج کے ذمہ داروں کا فرض ہے اس مہم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس اہم کاز کو کامیاب بنائیںیہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ بیرونی ممالک میں بر سر روزگار بہت سے نو جوان اسلامی تعلیمات سے آگاہی کی وجہ اپنے وطن واپس لوٹ کر شادی بیاہ کے موقع پر فضول و بے جا غیر اسلامی روایات سے انحراف کرتے ہوئے سنت کے مطابق اس سنت (نکاح) کی تکمیل کر رہے ہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ماں باپ اور افراد خاندان اس کی مخالفت کر تے ہوئے اس نیک کام میں رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں، ان کے ماں باپ کو بھی اوراندرون ملک رہنے والے نوجوانوں اور ان کے افراد خاندان کوبھی چاہئے کہ اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے نکاح کو آسان بنائیں، ان غیر اسلامی روایات کی وجہ معاشرہ جو تباہی کی آگ کے کھڈ میں جار ہا ہے اسکو اس مصیبت سے بچائیں۔