جہنم سے بچنے اور جنت میں جانے کی کوشش کریں

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جہنم کے اندر عورت اور مرد دونوں ہوں گے، ان کے اوپر بادل آئیں گے اور نیچے سے فرشتے گرز ماریں گے۔ بادلوں میں سے بجلی کڑکنے کی آوازیں آئیں گی، جب کہ گرز مارنے والے فرشتوں کے دانت لمبے لمبے اور ان کے ناخن بڑے بڑے ہوں گے، ان کے نتھنوں سے آگ کی لپٹیں نکل رہی ہوں گی اور ان کی آنکھیں سرخ ہوں گی، جس سے وہ غصے سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اس عذاب کے دوران ایک ایسا موقع آئے گا کہ جہنمی پانی مانگیں گے۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’کیا میں ان بادلوں کو برسادوں؟‘‘۔ یہ کہیں گے ’’ضرور برسادے‘‘۔

اللہ تعالی بادلوں کو حکم فرمائے گا، مگر بادلوں سے پانی کی بجائے بچھو گریں گے اور جہنمیوں کے جسم سے لپٹ کر ان کو ڈسیں گے، جس سے ان کی تکلیف اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ اس کے برعکس جنت میں انسان عیش و آرام اور سکون سے ہوگا۔ انبیاء کرام اور اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہوگا، نیکوں کا ساتھ ہوگا، کھانے کے لئے پھل ہوں گے، نہریں اور خوشبوئیں ہوں گی۔ یہ وہ زندگی ہے، جو کبھی جنتیوں سے واپس نہیں لی جائے گی۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم جنت کے محتاج ہیں اور جہنم سے بچنا ہماری ضرورت ہے، لہذا ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس چند روزہ زندگی میں ہم ہر طرح کے گناہوں سے بچیں، نیک کام کریں اور اپنی زندگی کے رخ کو بدلیں۔ اگر ہم نے اس دنیا میں چند دن بے پردگی کے گزارے، ٹی وی، ڈراموں اور ناچ گانوں سے محظوظ ہو لئے اور پھر جہنم میں جا پہنچے تو ہم نے کتنا برا سودا کیا، لہذا ان تمام گناہوں سے بچنا چاہئے، تاکہ اللہ تعالی قیامت کے دن جنت الفردوس عطا فرمائے۔ یقیناً جس (مرد و عورت) کو جنت کا مکان مل گیا، اسے ساری خوشیاں مل گئیں، اسی لئے حضرت بی بی آسیہ نے اللہ تعالی سے جنت میں مکان مانگا تھا۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ فرعون کے گھر میں ایک خادمہ رہتی تھی، جو اس کے بچوں کی خدمت پر مامور تھی۔ ایک دن وہ خادمہ فرعون کی ایک بیٹی کے بال میں کنگھی کر رہی تھی کہ اس کے ہاتھوں سے کنگھی نیچے گر گئی۔ اس نے کنگھی اٹھاتے ہوئے اللہ رب العزت کا نام لیا۔ جب خادمہ کے الفاظ فرعون کی بیٹی نے سنا تو اس نے کہا ’’کیا تو میرے باپ کو خدا نہیں مانتی؟‘‘۔ خادمہ نے کہا ’’ہرگز نہیں، میں تو حضرت موسی علیہ السلام کے رب کو مانتی ہوں‘‘۔ چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ گئی اور اپنے باپ فرعون کے پاس پہنچ کر کہنے لگی ’’ہمارے محل میں ایسی عورتیں بھی ہیں، جو آپ کو خدا نہیں مانتیں۔ ہمارا ہی دیا ہوا کھاتی ہیں اور ہماری ہی مخالف اور دشمن ہیں‘‘۔

فرعون کو بڑا غصہ آیا، کہنے لگا ’’اچھا میں ابھی انھیں سیدھا کردیتا ہوں‘‘۔ فرعون نے تاج سرپر رکھا، دربار لگوایا، اس خادمہ کو بلوایا اور خادموں سے کہا کہ ’’اسے زمین پر لٹاکر اس کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں کیل ٹھونک دو‘‘۔ گویا اس کے ہاتھ اور پیر ہل نہیں سکتے تھے۔ پھر اس خادمہ سے کہا گیا کہ ’’تم اپنے ایمان سے پھر جاؤ‘‘۔ خادمہ نے کہا ’’ہرگز نہیں، مجھے ایمان کا مزہ مل چکا ہے، لہذا اب میں اپنے ایمان سے نہیں پھرسکتی‘‘۔
فرعون نے کہا ’’میرے پاس تیرا علاج ہے‘‘۔ پھر اس نے اس خادمہ کی دودھ پیتی بچی کو منگوایا اور خادمہ کے سینے پر لٹاکر کہا ’’میں تیری بچی کو تیرے سینے پر ذبح کردوں گا۔ یہ بچی تڑپے گی اور اس کا خون تیرے سینے پر بہے گا، لہذا اب بھی بہتر ہے کہ تو میری بات مان لے‘‘۔ خادمہ نے کہا ’’ہرگز نہیں، میرا ایمان بڑا قیمتی ہے، جس کے لئے میں یہ قربانی برداشت کرلوں گی، لیکن اپنے ایمان سے نہیں پھرسکتی‘‘۔ بالآخر فرعون نے اس کی بیٹی کو اس کے سینے پر ذبح کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب بچی لاش تڑپ کر ٹھنڈی ہو گئی تو اس نے پھر مطالبہ کیا کہ ’’میری بات مانے گی یا نہیں؟‘‘۔ خادمہ نے پھر انکار کردیا۔

روایتوں میں ہے کہ فرعون نے بچھو پال رکھے تھے، جن کے ذریعہ وہ اپنے دشمنوں کو سزا دیتا تھا۔ اس نے کہا اس عورت کے جسم پر بچھو ڈال دیئے جائیں۔ چنانچہ جب بچھو ڈالے گئے اور وہ عورت کو کاٹنے لگے تو درد کی شدت سے خادمہ تڑپنے لگی اور اسی زہر کے اثر سے اس کی موت واقع ہو گئی اور وہ شہید ہو گئی۔

اس کے بعد فرعون گھر آیا اور اپنی بیوی حضرت آسیہ سے کہنے لگا کہ ’’آسیہ! تم نے دیکھا، میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے والی کا کیا حشر کیا؟۔ میں نے اس کو یوں مروایا اور اس کی بیٹی کو اس کے سینے پر ذبح کروایا‘‘۔ چوں کہ حضرت آسیہ خود بھی ایمان لاچکی تھیں، لہذا انھوں نے کہا ’’تو مردود ہے، ظالم ہے، تو نے ایک کمسن بچی اور اس کی ماں کی جان لی، تو کتنا بدبخت انسان ہے‘‘۔ فرعون نے جب حضرت آسیہ کی ملامت سنی تو کہنے لگا ’’آسیہ! کیا تو مجھے خدا نہیں مانتی؟‘‘۔ انھوں نے کہا ’’ہرگز نہیں مانتی، میں تو حضرت موسی علیہ السلام کے پروردگار پر ایمان لاچکی ہوں‘‘۔ جب فرعون نے یہ بات سنی تو اس کا دماغ ابلنے لگا اور کہا ’’پھر تو بھی دیکھ، میں تیرا کیا حشر کرتا ہوں‘‘۔ جس پر حضرت آسیہ نے فرمایا ’’تو جو کرسکتا ہے کرلے، میں بھی اب پیچھے نہیں ہٹوں گی‘‘۔

فرعون نے دربار میں آکر حکم دیا کہ میری ملکہ کو ہتھکڑی پہناکر دربار میں لایا جائے اور پھر اس نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں اور پیروں میں کیلیں ٹھونک دی جائیں۔ پھر ان کی کھال اُتارنے اور زخموں پر مرچیں چھڑکنے کا حکم دیا۔ درد کی شدت سے حضرت آسیہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگیں اور اس وقت ان کی نظر محل پر پڑی کہ یہ وہی محل ہے، جہاں سے فرعون نے مجھے نکالا، لہذا آپ نے اپنے رب سے دعاء کی، جسے قرآن پاک نے نقل کیا ہے: ’’اے اللہ! یہ فرعون مجھے اپنے محل سے نکال چکا ہے اور کہتا ہے کہ تم محروم ہو گئی ہو۔ اے اللہ! مجھے یہ محل نہیں چاہئے، بلکہ مجھے جنت میں گھر عطا فرما‘‘۔ (اقتباس)