اس عالم میں اپنی رسالت کے کردار کو خود حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال سے واضح فرمایا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میری اس دعوت و ہدایت کی مثال جس کے ساتھ مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے، ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی۔ جب اس کی روشنی گردوپیش میں پھیلی تو پروانے اور کیڑے جو آگ پر گرا کرتے ہیں، ہر طرف سے امڈکر اس میں گرنے لگے۔ اسی طرح سے تم آگ میں کودنا اور گرنا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمریں پکڑ پکڑکر تم کو اس سے بچاتا ہوں‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا احسان وہ ہے، جو آپ نے اعتقادات فرمایا۔ انسان کو وحدتِ خداوندی کی دعوت دی، انسان کو کفر و شرک کے دلدل سے نکالا، عقیدۂ توحید ایک حیات بخش پیغام تھا، جس نے شجر و حجر کے آگے جھکے ہوئے انسان کے سر کو اٹھایا اور اسے خالق کائنات کے سامنے لاکھڑا کیا۔ اس عقیدے نے انسان کو ایک نئی قوت، ایک نئی توانائی عطا کی۔ وہ خدا کے سوا ہر چیز سے بے خوف ہو گیا، ہر غلامی سے آزاد ہو گیا، اب وہ صرف خدا ہی کو کارساز حقیقی، حاجت روا، نافع و ضار سمجھنے لگا۔ اس عقیدے نے دنیا کے فلسفوں میں اور افکار و خیالات میں تبدیلی پیدا کردی، دنیا کے مذاہب اپنے مشرکانہ عقیدوں میں تاویل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ شرک و کفر کی نجاستوں سے خود کو دور کرنے لگے، انھیں اپنے مشرکانہ افعال پر شرم محسوس ہونے لگی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے طبقات کو تہ و بالا کردیا، انسانوں کے کانوں میں وحدت انسانی کا صور پھونکا، یہ اس عالم پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عظیم تھا۔ قوموں، برادریوں اور ذات پات کے بتوں کو توڑا، طبقات انسانی کی تفریق مٹائی، آپﷺ نے صدیوں سے طبقات میں بٹی ہوئی انسانیت کو وحدت انسانی کا پیغام دیا، عربی و عجمی کی تفریق ختم کی اور کالے گورے کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا۔ آج امریکہ ایک کالے کو اپنا صدر بناکر وحدت انسانی کا چمپین بننے کی ڈینگیں مار رہا ہے، لیکن تاریخ انسانی نے ابھی اپنا وہ ورق محفوظ رکھا ، جس پر لکھا ہے کہ ’’محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حبشی کو کعبہ کی چھت پر کھڑا کرکے، اس سے اذان دِلوائی تھی اور کمزور کو شہ زور کے برابر لاکھڑا کیا تھا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو اس کے مقام و منصب سے آگاہ کیا۔ اس وقت انسان بے قیمت، بے حقیقت اور جانوروں سے زیادہ بدتر ہوکر رہ گیا تھا، مٹی اور پتھر کے بنے ہوئے بتوں کے آگے انسان کے خون اور گوشت کے چڑھاوے چڑھائے جا رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ’’اے انسان! تو اس کائنات کی سب سے قیمتی چیز ہے، تو سب سے افضل ہے، تو سب سے زیادہ لائق احترام اور لائق محبت ہے، تو کائنات کے لئے نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ کائنات کو تیرے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ بقول شاعر: ’’جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے‘‘۔
انسان کی اس سے زیادہ عزت افزائی کیا ہوگی کہ اس کو ’’خدا کا کنبہ‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ خدا کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے، جو اس کے کنبہ سے اچھا سلوک کرے۔ ایک حدیث قدسی میں بتایا گیا کہ خود خدا نے غریب کی عیادت کو اپنی عیادت، غریب کی بھوک کو اپنی بھوک اور غریب کی پیاس کو اپنی پیاس قرار دیا۔
کیا عالم تہذیب و تمدن میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عظیم نہیں ہے کہ آپﷺ نے انسان کو جنگل کے قانون سے نکال کر عدل و انصاف کی دنیا میں پہنچا دیا۔
کیا عالم کے قلب و ذہن پر حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان نہیں کہ آپﷺ نے انسانیت کی کشتی کو مایوسیوں کے گرداب سے نکال کر امید کے ساحل پر پہنچا دیا۔ عیسائیت نے انسان کو پیدائشی گنہگار بتاکر اس کو اپنی ذات سے بدگمان اور مایوس کردیا تھا، مایوسیوں کی کڑی دھوپ سے نکال کر اس کو آپﷺ نے رحمت خداوندی کی ٹھنڈی چھاؤں میں پہنچا دیا اور برسہا برس کے مایوس انسان کو رحمت و مغفرت کا مژدہ جاں فزا سنایا۔
کیا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عظیم نہیں کہ آپ نے دین و دنیا کے دو خانوں میں بٹی ہوئی انسانیت کو دین و دنیا کی وحدت کا پیغام دیا۔ آپﷺ نے دین و دنیا کے تضاد کو ختم کرکے پوری زندگی کو عبادت اور بندگی بنا دیا، تمام روئے زمین کو ایک وسیع عبادت گاہ میں تبدیل کردیا، انسان دن کو شہسوار اور رات کو عبادت گزار بن گیا۔
کیا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عظیم نہیں ہے کہ آپ نے انسان کو اس کی منزل مقصود سے باخبر فرمایا، اس کی منزل کو اس کی آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔
کیا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان عظیم نہیں ہے کہ آپ کی تعلیم سے دنیا کی رُت بدل گئی، انسان کا مزاج بدل گیا، دلوں میں خدا اور رسول کی محبت کا شعلہ بھڑک اٹھا، خدا خوفی اور خدا طلبی کا ذوق عام ہوا، دلوں میں حرارت ایمان نے نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا،کروڑوں انسان جذبہ محبت و اخوت سے سرشار ہوکر بنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔داعیان حق، عارفان کامل، خادمان خلق کا ایک سیل رواں دنیا کے چپے چپے، شہر شہر، قصبہ قصبہ، بستی بستی، گاؤں گاؤں پھیل کر پچاس برس کے قلیل عرصہ میں دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔
یہ فرشتہ خصلت انسان مساوات کا سبق پڑھاتے، دکھوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں کو گلے لگاتے چلے گئے۔ ابر نیساں کی طرح دنیا کے چپے چپے پر برستے گئے، انسانیت کی سوکھی ہوئی کشت ویراں کو سرسبز و شادات کردیا۔ دنیا میں انسانیت کی بہار آگئی، چھوت چھات، ذات پات کی زنجیروں کو کاٹتے چلے گئے۔ آخر یہ سب کس کا فیض تھا؟ یہ سب کس کے احسانات تھے؟ کیا ایسے احسانات کرنے والے محسن سے محبت کرنا انسان کا فرض نہیں بنتا؟۔کیا اس محسن اعظمﷺ کا ممنون ہوکر اس کی محبت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لینا انسان کا اخلاقی فرض نہیں ہے؟۔
کیوں نہیں! محبت اور سب سے زیادہ محبت اس محسن اعظمﷺ کا حق ہے۔ (اقتباس)