جنوبی کشمیر میں موبائیل انٹرنیٹ خدمات مسدود

چوٹی کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ، محبوبہ مفتی نے صورتحال کا جائزہ لیا
سری نگر ۔ 3 اکتوبر۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) وادی کشمیر میں نامعلوم افراد کی جانب سے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر جنوبی کشمیر کے چار اضلاع میں احتیاطی اقدامات کے طور پر موبائیل انٹرنیٹ خدمات منقطع کردی گئی ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کا قدم کسی بھی طرح کی افواہ بازی کو روکنے کے لئے اٹھایا گیا ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اننت ناگ، پلوامہ، کولگام اور شوپیان میں انٹرنیٹ خدمات گذشتہ نصف شب کو کلی طور پر منقطع کی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ تیز رفتار والی فور جی اور تھری جی موبائیل انٹرنیٹ خدمات تین روز قبل یعنی 30 ستمبر کو ہی منقطع کی گئی تھیں۔ جنوبی کشمیر کے اضلاع میں جہاں ستمبر کے مہینے میں چوٹی کاٹنے کے کم از کم تین درجن واقعات سامنے آئے ، وہیں ان واقعات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کا اقدام افواہ بازی کے ساتھ ساتھ غیرضروری خوف و ہراس کی لہر کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اٹھایا گیا ہے ۔ جنوبی کشمیر کے اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے پیشہ ور افراد اور طالب علموں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ اس دوران وسطی ضلع بڈگام کے ماگام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق منگل کی صبح سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ لوگوں نے ملہ بوچھن نامی گاؤں سے ماگام چوک تک ریلی نکال کر ایسے واقعات میں ملوث لوگوں کو فوری طور پر بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے گذشتہ ہفتے ریاستی پولیس سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید کو ہدایت دی تھی کہ وہ خصوصی ٹیم تشکیل دیں تا کہ جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام اور ریاست کے دیگر علاقوں میں بال کاٹنے کے پر اسرار واقعات میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق وادی کے مختلف اضلاع بالخصوص جنوبی ضلع کولگام میں رواں ماہ کے دوران خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے تین درجن واقعات پیش آئے ہیں ۔ بیشتر واقعات میں خواتین کے بال بیہوشی کی حالت میں کاٹے گئے ۔ دوسری جانب جموں خطہ کے مختلف حصوں میں بال کاٹنے کے اب تک کم از کم پانچ درجن واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات سے جہاں خواتین میں خوف وہراس کی لہر دوڑی ہوئی ہے ، وہیں پولیس اور فارنسک سائنس لیبارٹری اب تک اس معمے کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔