ممکن ہے سفر ہو آساں ‘ ساتھ تو چل کے دیکھو
کچھ ہم بھی بدل کے دیکھیں ‘ کچھ تم بھی بدل کے دیکھو
جنتادل پریوار کا انضمام
سابقہ جنتادل کی پھوٹ کے بعد جو جماعتیں قائم ہوئی تھیں اب وہ ایک بار پھر ایک ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور دیگر علاقائی جماعتوں کی بدترین شکست کے بعد سے اس تعلق سے کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔ لوک سبھا انتخابات میں خود کانگریس کا بہت برا حشر ہواتھا ۔ کانگریس پارٹی اس شکست کے اثرات سے ابھی تک باہرنہیں نکل سکی ہے ۔ اتر پردیش میں اقتدار رکھنے والی سماجوادی پارٹی کو بھی لوک سبھا انتخابات میں شکست ہوئی ۔ بہار میں راشٹریہ جنتادل اور جنتادل یونائیٹیڈ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے اور دوسری علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو بھی بی جے پی کی لہر کے سامنے رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی تھی ۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ مسائل و پریشانیوں کا سامنا جنتادل پریوار کی جماعتوں کو تھا جنہوں نے اپنی اپنی سہولت اور خواہش کے مطابق الگ الگ جماعتیں بنالی تھیں۔ انتخابات میںشکست کے بعد انہیں اپنی ٹوٹ پھوٹ سے ہونے والی مشکلات کا احساس ہوا تو پھر ان تمام جماعتوں کو ایک کرنے کی سوچ نے دوبارہ جگہ حاصل کی اور اس سلسلہ میں سماجوادی پارٹی نے پہل کرتے ہوئے دوسروں کیلئے بھی غور و فکر کے دروازے کھول دئے تھے ۔ گذشتہ چھ مہینوں میں ہونے والی کوششوں کو ایسا لگتا ہے کہ اب کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ جنتادل پریوار کی چھ جماعتوں نے ایک دوسرے کے انضمام سے اتفاق کرلیا ہے ۔ ملائم سنگھ یادو کو انضمام کے اس عمل کی نگرانی سونپی گئی ہے اور وہ اس کو پایہ تکمیل تک پہونچائیں گے ۔ چونکہ بی جے پی اتر پردیش میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں جٹ گئی ہے اور لوک سبھا انتخابات میں اسے ملنے والی کامیابی نے اس کے حوصلے بلند کردئے ہیں اس لئے سماجوادی پارٹی کو سب سے زیادہ پریشانی لاحق ہے ۔ ایسے میں انضمام کیلئے اس کی کوششیں سنجیدہ ہوگئی تھیں اور بہار میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے سیاسی مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے اختلافات کو فراموش کردیا اور وہ بھی ایک ہونے کو تیار ہوگئے ہیں۔ ان جماعتوں میں پہلے سے بات چیت چل رہی تھی اور ایک اجلاس میں اب ملائم سنگھ یادو کو اس کی نگرانی سونپ دی گئی ہے ۔
جن جماعتوں کے انضمام اور ایک جماعت کے قیام کا فیصلہ ہوا ہے ان میں جنتادل یو ‘ راشٹریہ جنتادل ‘ سماجوادی پارٹی ‘ انڈین نیشنل لوک دل اور جنتادل سکیولر شامل ہیں۔ یہ جماعتیں علیحدہ علیحدہ جدوجہد میں اب ناکام ہو گئی ہیں اور اس کا احساس کرتے ہوئے باہمی انضمام کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس وقت جنتادل کا قیام عمل میں آیا تھا اسے کانگریس کا متبادل سمجھا جاتا تھا ۔ جنتادل نے ہی سب سے پہلے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اسے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا تھا اور خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی ۔ ہر ریاست میں اقتدار کی خواہش میں وہاں کے مقامی قائدین نے علیحدہ جماعت قائم کرلی اور کچھ دن اقتدار کے مزے لوٹے ۔ اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی ‘ بہار میں راشٹریہ جنتادل اور جنتادل یونائیٹیڈ ‘ کرناٹک میں جنتادل سکیولر اور ہریانہ میں انڈین نیشنل لوک دل نے اصل جماعت کو نظر انداز کرتے ہوئے الگ الگ پارٹی قائم کرلی تھی اور اس کے اثرات کا احساس انہیں گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی اپنی شکستوں کے بعدہوا ہے ۔ خاص طور پر ملائم سنگھ یادو اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہیں کیونکہ بی جے پی وہاں آئندہ اسمبلی انتخابات میں بہرصورت کامیابی حاصل کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے اور لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کو زبردست کامیابی ملی ہے جس کے بعد اس کے حوصلے مزید بلند ہوگئے ہیں۔ ان جماعتوں کا احساس ہے کہ قومی سطح پر کانگریس پارٹی کی جو شکست ہوئی ہے اس کے بعد ایک متبادل طاقت کے طور پر ابھرنے کا اس کیلئے یہ ایک اچھا موقع ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنتادل پریوار کی جماعتوں کا انضمام اگر ہوتا ہے تو یہ عوامی بھلائی اور بہتری سے زیادہ خود ان جماعتوں کی بھلائی اور بہتری کے مقصد سے زیادہ ہو رہا ہے ۔ ان جماعتوں کو اپنے اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ انضمام کے بعد اگر یہ جماعتیں انفرادی شناخت کی بجائے اجتماعی مقاصد کیلئے جدوجہد کرتی ہیں تو پھر ان کے انضمام کے کچھ اثرات قومی سیاست پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں بصورت دیگر چھ جماعتوں کی بجائے ایک جماعت کے نام سے کام کرنا بھی بے کار ثابت ہوسکتا ہے اگر یہ تمام جماعتیں اور ان کے تمام قائدین شخصی انا کو بالائے طاق نہ رکھ سکیں۔ ان جماعتوں کے انضمام کو دیکھتے ہوئے ان سے مستقبل میں کسی طرح کی امیدیں وابستہ کرنا فی الحال قبل از وقت ہی کہا جاسکتا ہے ۔