حضرت سید اسعد حسین ہارونی ؒ نجیب الطرفین سادات مکہ سے تھے۔ آپ کے اسلاف کا تعلق امرائے مکہ سے تھا۔ آپ کے والد حضرت سید صدیق بن عبدالرحمن نے آپ کو بچپن میں تعلیم کی غرض سے ننھیالی وطن مدینہ منورہ روانہ کیا تھا جہاں مسجد نبوی میں آپ کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ ابھی آپ صرف ۹برس کے تھے کہ ۱۹۱۳ء میں نجدیوں کی شورش سے والیٔ مکہ کا قتل ہوگیا اور آل سعود مکہ کا حکمران ہوا یہ نجدی حکمران والیٔ مکہ کے قرابت داروں کو چن چن کر قتل کررہے تھے اس پُرآشوب زمانہ میں آپ کے رشتہ داروں نے آپ کو ایک قافلہ کے ہمراہ ہندوستان روانہ کردیا۔ آپ پاپیادہ خشکی کے راستے بنگال آئے۔ یہاں آپ ؒکے چچا کا قیام تھا وہ بنگال کے مشہور عالم اور خطیب تھے۔ یہاں آپؒ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور قلیل عرصہ میں قرآن مجید حفظ کیا اور فقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ مرادآباد میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ رشد و ہدایت کے لئے دہلی، گجرات، احمدآباد، سورت اور مہاراشٹرا گئے پھر حیدرآباد آئے۔ یہاں مسجد توپ خانہ گوشہ محل میں دو سال تک امامت کے فرائض انجام دیئے اور بچوں کو قرآن مجید کا درس بھی دیتے رہے۔ ایک دن حضرت سلطان علی شاہ صاحب بخاری ؒ نے عالم رویا میں اپنے مرید و خلفاء کو اسعد حسین ہارونی ؒ کے حلیہ سے واقف کرواتے ہوئے یہ ہدایت دی کہ آپ کو حیدرآباد واپس لائیں اور صاحبزادی سے آپ کا عقد کریں چنانچہ حضرت اسعد حسین ہارونی کو حیدرآباد لایا گیااور رسم دستاربندی انجام دی گئی اور مسند سجاد پر آپ کو متمکن کیا گیا۔ حضرت سید اسعد حسین ہارونی ؒ نے اپنی عمر کا بڑا حصہ ہندوستان کے مختلف مقامات میں مجاہدات اور ریاضت میں گذارا۔ حیدرآباد میں اپنے قیام کے ۴۶برسوں کے دوران آپ بلالحاظ مذہب و ملت سینکڑوں بندگان خدا کو نیکی کا راستہ بتاتے رہے اور ان کی اصلاح اور تربیت کی۔ ۷۷برس کی عمر میں ۱۶ محرم ۱۴۰۱ہجری مطابق ۱۴نومبر ۱۹۸۱ء کو آپ کا وصال ہوا اور حسب وصیت حضرت سید سلطان علی شاہ ؒ کے گنبد کے مقابل سماع خانے میں آپ کی تدفین عمل میں آئی جس پر چند برس قبل آپ کے فرزند و جانشین نے خوشنما گنبد تعمیر کروایا۔ ہر سال ۱۶تا ۱۸محرم آپ کا عرس شایان شان پیمانے پر منایا جاتا ہے۔