جمہوریہ وسطی افریقہ میں ہزاروں مسلمان کا قتل عام

بنگوئی ، 15 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) جمہوریہ وسطی افریقہ میں انتہا پسند عیسائی ملیشیاؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور ہزاروں مسلمان دارالحکومت بنگوئی سے جانیں بچاکر محفوظ مقامات کی جانب جارہے ہیں لیکن جمعہ کو اس افریقی ملک میں تعینات امن دستوں نے انھیں بیرون ملک جانے سے روک دیا ہے۔ جمہوریہ وسطی افریقہ میں عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور ان کے وحشیانہ انداز میں قتل عام کی خبریں عالمی میڈیا میں نمایاں طور پر نشر یا شائع نہیں کی جارہی ہیں اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ یہاں مرنے والے مسلمان اور مارنے والے عیسائی ہیں۔ اگر معاملہ برعکس ہوتا تو عالمی میڈیا اس وقت چیخ رہا ہوتا۔ بنگوئی اور اس کے نواحی علاقوں میں گزشتہ چند روز کے دوران ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مسلح عیسائی دارالحکومت کی شاہراہوں پر دندناتے پھر رہے ہیں اور وہ کھلے عام کو مسلمانوں کو للکار رہے ہیں اور جہاں بھی انھیں کسی مسلمان کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے،

وہ اس کو پکڑ کر قتل کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل سے وسطی افریقہ میں مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کیلئے فوری اقدامات کی اپیل کی ہے جبکہ فرانس نے اس ملک میں تعیناتی کیلئے مزید چار سو فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔اس سے پہلے فرانس کے 1600 فوجی اس کی اس سابقہ کالونی میں موجود ہیں۔ لیکن فرانسیسی فوجیوں کے علاوہ افریقی امن دستوں کی موجودگی کے باوجود وسطی افریقہ کے دارالحکومت میں خونریزی جاری ہے اور امن دستے عیسائی بلوائیوں کے مسلمانوں پر مظالم کو رکوانے کیلئے کوشاں ہیں۔جمعہ کو تازہ لڑائی میں ایک شخص ہلاک اور دوزخمی ہوگئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق مسلح عیسائیوں کے جتھے مسلمانوں پر حملہ آور ہورہے ہیں اور وہ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینکتے دیتے ہیں یا پھر سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں اور لاشوں کا مثلہ کردیتے ہیں۔انھیں یہ سزا سابق سلیکا حکومت کی حمایت کی پاداش میں دی جارہی ہے۔مسلمانوں کی حمایت یافتہ اس حکومت کو گزشتہ ماہ اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تھا۔

اب عیسائی اس حکومت کے حامیوں کو چن چن کر قتل کررہے ہیں اور وہ کھلے عام تمام مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ وسطی افریقہ میں گزشتہ ماہ بحران شروع ہونے سے قبل مسلمانوں کی آبادی قریباً 15 فیصد تھی جبکہ اس ملک کی کل آبادی 46 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اب مسلمانوں کی کثیر تعداد خانہ جنگی کے بعد پڑوسی ملک چاڈ کی جانب جارہی ہے۔