جموں و کشمیر کی سیاسی پارٹیاں

ڈھلنے لگا سورج تو جو بڑھنے لگے سائے
کچھ لوگ سمجھتے ہیں حقیقت میں بڑے ہیں
جموں و کشمیر کی سیاسی پارٹیاں
جموں و کشمیر میںکانگریس اور نیشنل کانفرنس نے اپنی تقریباً 6 سال کی سیاسی رفاقت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب یہ دونوں پارٹیاں اسی سال کے اواخر میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کریں گی لیکن ان دونوں کے اتحاد کی حکومت انتخابات تک برقرار رہے گی۔ اس اتحاد کو ایک ایسے وقت توڑا گیا جب جموں و کشمیر میں سیکولر سیاسی طاقتوں کو متحد رہ کر بی جے پی کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کرنی تھی۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں وادی کشمیر میں بی جے پی کے شاندار مظاہرہ کے بعد ہوسکتا ہیکہ حکمراں پارٹی نیشنل کانفرنس کے سیاسی مقاصد کو دھکہ پہنچا ہے مگر اس نے اتحاد ختم کرکے اپنے سیاسی وزن کو مزید کم کرلیا ہے۔ کانگریس کو اپنے سیاسی مستقبل پر فکرمند ہونا ضروری ہے۔ دونوں پارٹیوں کے قائدین کو شاید مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت سے اتنا شدید صدمہ ہوا ہے کہ وہ سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہ سیاست داں اتنی بھی فہم نہیں رکھتے کہ مفت کے شربت میں شکر کی مقدار نہیں پرکھی جاتی۔ وادی کشمیر میں سیاسی طاقت کا توازن دوسری پارٹی کی جانب جھک رہا ہے تو سیکولر پارٹیوں کو اپنے مفادات سے زیادہ ریاستی عوامی اور قومی مزاج کے سیکولر تانے بانے کے تحفظ پر توجہ دینی ہوتی ہے۔ چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے اب تک آتش بگولوں پر سوار ہوکر حکومت کی ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو انہوں نے کسی حد تک کنٹرول میں رکھا ہے مگر سیاسی طاقتوں کا سامنا کرنے وہ تنہا معرکہ آرائی کی تیاری کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک عمر عبداللہ کی سیاسی قلا بازیاں ان کی طبعیت کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ اگر وہ اپنی ریاست میں نیشنل کانفرنس کو اپنے بل بوتے پر کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے سیاسی تجزیہ کاری ضروری ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عمر عبداللہ تنہا طور پر اقتدار کی منزل پر دوبارہ پہنچ سکیں گے یا نہیں لیکن انہیں بند ہونا چاہئے کہ وادی کشمیر کے انتخابات متنازعہ ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کے قائدین نے وادی کے ایک گوشے کو زعفرانی رنگ دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس لئے پارٹیوں میں پھوٹ یا اتحاد ٹوڑ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ویسے جو پارٹیاں ماقبل انتخابات اتحاد بنانے یا توڑنے کے عمل سے گذرتی ہیں انہیں نتائج کے بعد ہی نفع و نقصان کا اندازہ ہوتا ہے۔ وادی کشمیر میں سیاسی طاقت کے توازن کا فیصلہ کرنے والے قائدین میں خاص کر کانگریس کے قائدین غلام نبی آزاد، امبیکا سونی اور سیف الدین سوز نے جموں و کشمیر میں کانگریس پارٹی کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔ وہ ماقبل انتخابات کسی بھی قسم کا اتحاد نہیں کرے گی۔ اسی طرح چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے بھی جو نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، 10 دن قبل ہی کہا تھا کہ انہوں نے صدر کانگریس سونیا گاندھی اتحاد توڑنے کی اطلاع دی ہے۔ یہ دو پارٹیوں کا یہ فیصلہ ریاست کی صورتحال کا حقیقی طور پر جائزہ لیئے بغیر کیا گیا فیصلہ ہے۔ اپنے بل پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کسی بھی پارٹی کی اس کی اپنی سیاسی طاقت اور ساکھ کا مظہر ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں رائے دہی کے فیصد میں آنے والی تبدیلی نے یہ سیاسی پارٹیوں کو آپس میں متحد ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔ جموں و کشمیر میں سیاسی اتحاد کا رجحان ختم کرنے کانگریس اب جموں و کشمیر کے تمام 87 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرے گی یا روایتی طور پر حلیف امیدواروں کی تائید کرے گی۔ لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں ووٹ فیصد کی تقسیم کو مدنظر رکھ کر اگر اتحاد توڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ لوک سبھا انتخابات میں رائے دہندوں کا رجحان اور اسمبلی انتخابات میں عوام کی رائے کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج اور ووٹ فیصد سے ہر ایک امیدوار کی کامیابی کی ضمانت متصور نہیں کیا جاسکتا۔ جموں و کشمیر میں سیکولر پارٹیوں کی سیاسی راہیں الگ ہورہی ہیں تو نتائج بھی منفرد ہوں گے۔ قومی سطح پر واحد پارٹی حکمرانی کے تناظر میں ہر پاٹی اپنا سیاسی وزن معلوم کرنا چاہتی ہے تو آنے والے اسمبلی انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے غیر روایتی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ مہاراشٹرا میں بھی این سی پی۔ کانگریس اتحاد کو برقرار رکھنے سے متعلق دونوں پارٹیاں تذبذب کا شکار معلوم ہوتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں این سی سے علحدگی کے بعد کانگریس اگر مہاراشٹرا میں بھی تنہا مقابلہ کرنے پر غور کرے گی تو یہاں کے نتائج سیدھے زعفرانی اتحاد کی جھولی میں ہوں گے۔