جموں و کشمیر اور گورنر راج

ایک پل کے رکنے سے دور ہوگئی منزل
صرف ہم نہیں چلتے راستے بھی چلتے ہیں
جموں و کشمیر اور گورنر راج
بی جے پی نے جموں و کشمیر اسمبلی میں شرمندگی کے ساتھ اقتدار دینے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں اس ریاست کو گورنر راج کی جانب ڈھکیل دینا پڑ رہا ہے کسی بھی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہ ہونے کے بعد حکومت سازی کیلئے سیکولر پارٹیوں میں بھی عدم اتفاق رائے سے واضح ہوتا ہے کہ وادی کشمیر کے عوام کو ووٹوں کے ذریعہ فیصلہ کرنے میں گمراہ کردیا گیا تھا۔ کار گذار چیف منسٹر عمر عبداللہ نے گورنر سے ملاقات کر کے انہیں ریاست کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کی خواہش کی جس کے بعد جموں و کشمیر میں گورنر راج کی راہ ہموار ہوئی۔ آج اس بات کو 12 سال پہلے کی صورتحال کا ایک بار پھر سامنا کرنا پڑا ہے جب فاروق عبداللہ نے نگرانکار چیف منسٹر کی حیثیت سے سبکدوش کرنے کی خواہش کی تھی کیوں کہ آج کی صورتحال کی طرح ماضی میں بھی پی ڈی پی اور کانگریس کے درمیان حکومت سازی کیلئے اتحاد کرنے میں کافی وقت ضائع ہوا تھا ۔ اس وقت بھی وادی کشمیر کو غیر یقینی سیاسی صورتحال سے دوچار کرتے ہوئے سیاسی پارٹیاں عوام کو مشکلات میں مزید اضافہ کررہی ہیں ۔ عمر عبداللہ نے موجودہ بحران کیلئے پی ڈی پی کو ذمہ دار ٹہرایا ہے ۔ اس نے کشمیر عوام کے خط اعتماد کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ جموں و کشمیر کی سیاسی زندگی میں اتھل پتھل پیدا کرنے والی بی جے پی نے بھی حکومت سازی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کی ہمت نہیں دکھائی جبکہ بی جے پی کو مرکز میں اقتدار حاصل ہے اور وہ سرحدی ریاست کی حکمرانی کا فرض ادا کرنے سے خائف ہونے کا مظاہرہ کرنے لگی ۔ بی جے پی کی نظر میں اقتدار کیلئے استحقاق کا معیار کچھ اور ہی ہے ۔ کشمیر کے سیاستدانوں نے بھی اپنے عوام کے دونوں کی قدر نہیں کی ہے ۔ ریاست میں متعلق اسمبلی کے وجود میں آنے کے بعد سیاسی بحران پیدا ہوگیا تھا ۔ نہ ہی پی ڈی پی کو واحد پارٹی اس وقت حاصل ہوا اور نہ ہی بی جے پی کو قطعی اکثریت مل سکی۔ پی ڈی پی نے 28 نشستوں کے ساتھ حکومت بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا لیکن بی جے پی نے 25 ارکان کے ساتھ دیگر پارٹیوں سے اتحاد کرنے کی کوشش نہیں کی اس نے انتخابات کے دوران 44 حلقے جیتنے کا نشانہ مقرر کیا تھا ۔ 87 رکنی اسمبلی میں اس چاروں عدد کو حل کرنے میں ناکامی نے بی جے پی کو اس احساس سے دوچار کردیا کہ کشمیری عوام نے اسے قبول نہیں کیا ہے۔ عمر عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس کو 15 نشستیں ملی اور کانگریس نے صرف 12 حلقوں پر کامیابی حاصل کی ۔ ان پارٹیوں کو کسی ایک پارٹی کا ساتھ دے کر حکومت بنانے میں مدد کرنی چاہئے تھی لیکن کشمیر اسمبلی کی معیاد کے ختم ہونے سے قبل حکومت کی تشکیل میں ہر پارٹی ناکام نظر آرہی ہے ۔ 19 جنوری کو موجودہ اسمبلی کی مدت ختم ہوگی تو گورنر راج ناگزیر ہوگا ۔ دستوری بحران سے گریز کرنے کیلئے گورنر راج کو ترجیح دی جائے گی اس طرح جمہوری تاریخ کی ایک اور سیاہ ترین رات کا سامنا کرنے کیلئے عوام کو تیار رہنا پڑے گا ۔ پی ڈی پی کو آئندہ انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل ہونے کا اندازہ ہے ۔ اسی لئے وہ فی الحال حکومت بناکر اپنے ہاتھ جلانا نہیں چاہتی ۔ بارہا وفاداریاں اور سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں نے بھی وادی کشمیر کو سیاسی بحران سے بچانے کی کوشش نہیں کی ان کی تنگ نظری دراصل مفادات کے حصول کیلئے تھی اور اس کے باعث وادی کشمیر پھر ایک مرتبہ گورنر راج کی جانب بڑھ رہی ہے۔ بی جے پی اور پپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی صدر مفتی محمد سعید کے درمیان بات چیت کے کوئی نتائج برآمد نہ ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں پارٹیاں عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی اگر یہ اتحاد ہوتا تو وادی کشمیر میں ایک فرقہ پرست پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر پی ڈی پی کو سیاسی خسارہ سے دوچار ہونا پڑتا تھا لہذا اس نے فیصلہ کرلیا کہ وادی کشمیر میں تازہ انتخابات کے ذریعہ عوام کا خط اعتماد حاصل کرے گی جس ریاست میں اکٹوبر سے باقاعدہ کوئی حکومت کام نہیں کررہی ہے تو وہاں سرکاری نظم و نسق بھی ٹھپ رہتا ہے۔ عمر عبداللہ نے 24 ڈسمبر کو اپنا استعفی دینے کے بعد نگرانکار چیف منسٹر کی حیثیت خدمت انجام دی جبکہ اس حساس ریاست کو ایک باقاعدہ حکمران کی ضرورت تھی ۔ گذشتہ 15 دن سے حکومت سازی پر تعطل برقرار ہے اس میں کوئی تبدیلی نظر نہ آنا گورنر راج کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ جموں و کشمیر کے عوام کو بی جے پی کے وعدوں پر بھروسہ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے تو آئندہ کیلئے انہیں یہ درس ضرور ملا ہے کہ وہ دونوں کے استعمال میں گمراہی کا شکار نہیں ہوں گے ۔