جموں و کشمیر اسمبلی نتائج

سب کچھ ہے پاس لیکن کچھ بھی نہیں رہا
اس کی ہی جستجو تھی وہی نہیں رہا
جموں و کشمیر اسمبلی نتائج
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج اور سیاسی پارٹیوں کی ساجھے داری نے دوست و دشمن پارٹیوں کی تمیز کو ختم کردیا ہے۔ نیشنل کانفرنس نے حکومت کرتے ہوئے گزشتہ چند سال میں نیک نامی کے بجائے کشمیری عوام کی ناراضگی حاصل کی ہے تو اب وادی کی سیاسی کیفیت اتحادی جماعتوں کی دلجوئی کی طرف مائل ہوگئی ہے۔ بی جے پی کے قدم جمانے کی جدوجہد نے اس پارٹی کو جموں و کشمیر میں بہتر موقف عطا کیا ہے۔ کانگریس کا اثر صفر کے برابر ہوجائے گا۔ یہ غیرمتوقع بات ہے۔ وادی میں کانگریس ایک عرصہ سے اپنے سیاسی وزن کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ وادی کشمیر کے حالات موجودہ سیاسی پارٹیوں کیلئے لمحہ فکر ہیں۔ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کے درمیان بی جے پی نے اپنی جگہ پیدا کرلی ہے تو یہ پارٹی آگے چل کر وادی میں کیا رنگ دکھائے گی اور سماج کے تانے بانے کو کس قدر ضرب لگائے گی، یہ وقت ہی بتائے گا۔ جموں میں ہندو رائے دہندوں کو ایک مضبوط سیاسی طاقت کی تلاش تھی، اس لئے وہ جموں کے عوام کی پسندیدہ پارٹی بن گئی ۔ بی جے پی کی مقبولیت کو دیکھ کر ہی عمر عبداللہ نے پارٹی کے سینئر قائدین کی تعریف کرتے ہوئے سیاسی اتحاد کا اشارہ دیا تھا۔ اٹل بہاری واجپائی کو بھارت رتن دینے کا مطالبہ کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عمر عبداللہ اپنی پارٹی کی بدترین شکست کو قبول کرچکے ہیں۔ اب وہ اپنی پارٹی کیلئے کسی مضبوط اتحاد کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ساتھ مابعد انتخابات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ ایک اور سیاسی بھول ہوگی ، ویسے انہوں نے پی ڈی پی کی تائید کا اشارہ دیا ہے۔ 87 رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو صرف 17 نشستوں پر کامیابی ملی ہے تو اس کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عمر عبداللہ نے ریاست میں عوام کے لئے سابق حکومتوں سے ہٹ کر کچھ بہتر کام انجام دیئے تھے، ان کے دور میں دہشت گردی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں بھی کمی دیکھی گئی۔ عوام نے اس کو مسترد کردیا ہے تو وجوہات کا پتہ چلانا عمر عبداللہ اور ان کی ٹیم کا کام ہے۔ محبوبہ مفتی یا مفتی محمد سعید کی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو اقتدار کے حصول کے قریب لے جانے والے نتائج نے وادی کے عوام کی منقسم رائے کو واضح کردیا ہے۔ جموں و کشمیر کے برعکس جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ عوام کی بڑی تعداد نے پرانی حکمراں پارٹیوں کو یکسر نظرانداز کردیا حالانکہ جھارکھنڈ میں علاقائی پارٹیوں کا بھی غلبہ رہا ہے اور حکومت کرنے کے باوجود علاقائی پارٹیوں نے اس مرتبہ اپنا اثر نہیں دکھایا۔ قومی و علاقائی سطح پر ایک لہر کی وجہ سے بی جے پی پے درپے کامیابی حاصل کررہی ہے اور اس کی یہ کامیابی عوام کے اظہار اعتماد کی مرہون منت ہے، تاہم اس نے جو 44 نشستیں حاصل کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں ایک نیا ریکارڈ بنانے کا جو جشن شروع کیا تھا، اس میں ناکامی ہوئی ہے۔ کشمیر اسمبلی میں پہونچنے کی دوڑ میں شامل کسی بھی سیاسی پارٹی نے اس جادوئی عدد یعنی 44 نشستوں کے حصول میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ بی جے پی اگر حکومت تشکیل دینے کی ضد کرنے لگے تو پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے قائدین بی جے پی کا ساتھ دینے کو اپنا فخر محسوس کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کی یہ غلطی بہت بڑی سیاسی بھول ثابت ہوگی، کیونکہ وادی کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا تھا، اس کو مابعد انتخابات گلے لگانے کی کوشش کرنا پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس کیلئے افسوسناک بات ہوگی کیونکہ عوام نے انہیں اس کی شناخت کی بنیاد پر ووٹ دیا تھا ناکہ بی جے پی کے اتحاد کرنے پر مابعد انتخابات اتحاد کا مطلب اقتدار کا لالچ کہلاتا ہے۔ بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد کی صورت میں چیف منسٹر کی حیثیت سے محبوبہ مفتی کو موقع ملے گا یا کسی ہندو مقامی سیاست داں کو چیف منسٹر بنایا جائے گا، یہ بھی اب غیرموزوں بات ہوچکی ہے۔بی جے پی کیلئے فی الحال اس مسئلہ پر ضد کرنے کی گنجائش نہیں ہے البتہ وادی کشمیر کا ایک ہندو چیف منسٹر بنانے کی اس کی کوشش کو دھکہ ضرور پہونچا ہے۔ بی جے پی کو جتنے بھی حلقے ملے ہیں، اس کیلئے غنیمت ہیں۔ وادی کے عوام نے آرٹیکل 370 تنازعہ کے باوجود اس کو ووٹ دیا ہے۔ وادی میں سب سے زیادہ برا حال کانگریس کا ہے۔ وہ بی جے پی کے اسٹارپن کو کمزور کرنے کیلئے کوئی جادو کی چھڑی حاصل نہیں کرسکی۔ وادی کے عوام کو ایک اچھی، صاف ستھری اور پرامن مستحکم حکومت دینے کیلئے کسی بھی پارٹی کو اتحاد کے معاملے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے اپنی بعض متنازعہ پالیسیوں کو ترک کردیا ہے اور بعض پر عمل آوری روک دی ہے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر بی جے پی اقتدار پر آجائے تو وہ فوج کو دیئے گئے خصوصی اختیارات قانون کو واپس لے گی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ وادی کے عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا ہے۔ اب اسے وادی کے عوام کے مسائل پر توجہ دینے کیلئے اپنے مرکزی حکمراں اختیارات پر کام کرنا ہوگا۔