جموں وکشمیر کے سیلاب کو قومی آفت قرار دینے وزیر اعظم سے اپیل

نئی دہلی 13 ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) جموں و کشمیر کی ایک اعلی سطح کی وزارتی ٹیم نے آج وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ ریاست میں آئے سیلاب کو قومی آفت قرار دیا جائے اور فراخدلانہ اور عملی معاشی امداد کے علاوہ ریاست میں جلد از جلد عام حالات کو بحال کرنے کیلئے خصوصی بازآبادکاری پیکج کا بھی جلد از جلد اعلان کیا جائے ۔ ریاست کے وزیر فینانس عبدالرحیم راتھیر کی قیادت میں ایک وفد نے مودی کو ایک یادداشت پیش کی اور ریاستی حکومت کی امداد کیلئے کئی مطالبات پیش کئے ۔ ریاست گذشتہ 100 سال کی سب سے سنگین تباہی کا سامنا کر رہی ہے ۔ یادداشت میں وزیر اعظم سے خواہش کی گئی کہ وہ اس سیلاب میں ہوئی جان و مال کے بھاری نقصان پر غور کریں اور اس تباہی کو قومی آفت قرار دیا جائے تاکہ دوسرے فائدے جیسے مرکز سے گرانٹس ‘ نرم شرائط پر قرض وغیرہ کی سہولت سے استفادہ کیا جاسکے ۔ سینئر ریاستی وزیر علی محمد ساگر نے ‘ جو وفد میں شامل تھے اخباری نمائندوں سے کہا کہ وزیر اعظم نے مثبت رویہ ظاہر کیا

اور یہ تیقن دیا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے میں پوری طرح سے مدد کرینگے ۔ قومی آفت یا سانحہ قرار دینے کیلئے چونکہ کوئی رہنما خطوط موجود نہیں ہیں ایسے میں مرکزی حکومت اس آفت میں ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرتی ہے اس کے علاوہ امددای کام کاج میں ریاستی حکومتوں کی اہلیت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے ۔ 2013 میں اتر کھنڈ میں آئے سیلاب کو مرکزی حکومت نے انتہائی شدید نوعیت کی آفت قرار دیا تھا اور مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست کو 12,000 کروڑ روپئے کی امداد دی گئی تھی ۔ نریندر مودی نے اتوار کو اپنے دورہ جموں و کشمیر کے موقع پر 1000 کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا تھا ۔ اس وفد نے انتہائی مشکل حالات میں مرکز کی مدد پر اظہار تشکر کیا اور کہا کہ سیلاب سے نمٹنے میں ہندوستانی فوج ‘ ائر فورس اور نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس ٹیم نے بہت اہم رول ادا کیا ہے ۔

وفد نے کہا کہ ریاستی حکومت کو مرکز سے مزید اور مسلسل مدد کی امید ہے جس سے ریاست میں جلد از جلد عام حالات کو بحال کیا جاسکے ۔ مسٹر ساگر نے کہا کہ وفد نے وزیر اعظم سے خواہش کی کہ جن کے مکانات سیلاب میں پوری طرح تباہ ہوگئے ہیں انہیں فی کس پانچ لاکھ روپئے اور جن کے مکانات جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں ان کیلئے فی کس دو لاکھ روپئے فوری امداد فراہم کی جائے ۔ اس دوران وادی کشمیر میں حالانکہ پانی کی سطح میں کمی آتی جا رہی ہے لیکن شمالی کشمیر میں سطح آب میں اضافہ ہو رہا ہے جس پر چیف منسٹر عمر عبداللہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شمالی کشمیر میں پانی کی سطح میں اضافہ باعث تشویش ہے ۔ علاوہ ازیں وادی میں پانی کی سطح کم ہونے کے بعد صحت کے مسائل پیدا ہونے کے اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں جہاں پانی سے پھیلنے والے وبائی امراض کا خطرہ بڑٌ گیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی تک 1.5 لاکھ افراد پانی میں محصور ہیں سیول انتظامیہ اور فوج کی جانب سے ریاست میں امدادی اور بچاؤ کام جاری ہیں ۔ چیف منسٹر عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ کشمیر کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں سیلاب میں اتنی اموات نہیں ہوئی ہیں جتنی اس آفت کے بعد ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ ادویات کی فراہمی اور پانی کو صاف کرنے کی ادویات جیسے کلورین وغْرہ کی فراہمی پر مرکوز ہے ۔ ہم کلورین کی گولیاں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ہم نے بلدیات سے کہا ہے کہ وہ صفائی کے کام کاج کا آغاز کردیں۔ ہماری اصل توجہ بچاؤ کاموں کے علاوہ غذا کی فراہمی ‘ بیماریوں کی روک تھام پر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دیڑھ لاکھ افراد پانی میں محصور ہیں۔ اب جبکہ بچاؤ کام 12 دن سے چل رہے ہیں ایک دفاعی ترجمان نے کہا کہ اب تک جملہ دیڑھ لاکھ افراد کو سیلاب زدہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کو صاف کرنے والی گولیاں 13 ٹن اور چھ پانی صاف کرنے والے پلانٹس سرینگر پہونچ گئے ہیں۔ عمر عبداللہ نے آج ایک کل جماعتی اجلاس منعقد کیا جسکے بعد مشترکہ اپیل جاری کرکے ریاست کی اور ریاست کے باہر کی تنظیموں اور افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ ریاست کے متاثرہ عوام کی ہر ممکنہ انداز میں مدد کریں۔ اجلاس میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں متاثرہ عوام سے مکمل اظہار ہمدردی کیا گیا ہے ۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کو دستیاب اعداد و شمار کے بموجب جموں ڈویژن میں سیلاب کی وجہ سے 129 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ وادی کشمیر میں 30 تا 35 اموات کی اطلاع ہے ۔