جب قیادت کی طرح سرکاری محکمہ جات بھی سرد پڑجاتے ہیں

حیدرآباد۔ 2۔ مئی  ( سیاست نیوز) مسلمانوں کی تعلیمی ، سماجی اور معاشی پسماندگی کا جائزہ لینے کیلئے قائم کردہ سدھیر کمیشن آف انکوائری اگرچہ مقررہ میعاد کے دوران حکومت کو رپورٹ پیش کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن سرکاری محکمہ جات کے عدم تعاون کے سبب کمیشن کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ کمیشن نے تمام سرکاری محکمہ جات سے مسلمانوں کی روزگار میں حصہ داری کے بارے میں جو تفصیلات طلب کی ہیں، وہ کمیشن کو حاصل نہیں ہوئی۔ تعلیمی اور سماجی پسماندگی کے بارے میں متعلقہ سرکاری محکمہ جات سے رپورٹ مانگی گئی ہے تاکہ اپنی رپورٹ میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت سے تحفظات کی فراہمی کی سفارش کی جاسکے۔ ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار جی سدھیر اور کمیشن کے تین ارکان وقفہ وقفہ سے اجلاس منعقد کر تے ہوئے سرکاری محکمہ جات سے حاصل ہونے والی تفصیلات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بمشکل 30 فیصد محکمہ جات نے کمیشن کو تفصیلات روانہ کی  لیکن ان میں سے بیشتر محکمہ جات کی تفصیلات نامکمل ہے۔ کمیشن جس انداز میں تفصیلات چاہتا ہے ، وہ روانہ نہیں کی جارہی ہیں۔ کمیشن کی جانب سے سرکاری محکمہ جات کو بارہا توجہ دہانی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری محکمہ جات میں موجود عہدیدار رپورٹ پیش کر نے سے گریز کر رہے ہیں۔ محکمہ جات میں موجود مخالف مسلم اور مخالف تحفظات عناصر نہیں چاہتے کہ کمیشن کو مسلمانوں کی پسماندگی اور سرکاری اداروں میں عدم نمائندگی کے بارے میں حقیقی صورتحال پیش کی جاسکے۔ کمیشن آف انکوائری کو تفصیلات کے حصول میں سرکاری محکمہ جات کی سردمہری کا سامنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کمیشن نے محکمہ جات کے اس رویہ کے بارے میں حکومت کی توجہ مبذول کی لیکن پھر بھی محکمہ جات کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ جب تک تمام سرکاری ادارے مسلم نمائندگی کے بارے میں تفصیلات پیش نہیں کرتے ، اس وقت تک سرکاری ملازمتوں میں حقیقی صورتحال کا پتہ نہیں چلے گا۔ کمیشن نے اپنے طور پر سروے کا آغاز کیا ہے ، جس کیلئے ایک غیر سرکاری ادارے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس سروے میں 10 صفحات پر مشتمل سوالنامہ عوام کے ذریعہ پُر کیا جارہا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ یہ سروے اختتامی مراحل میں ہے۔ حکومت نے کمیشن کی میعاد میں ستمبر تک توسیع کردی ہے اور جی سدھیر اور ان کی ٹیم ستمبر سے قبل اپنی رپورٹ بہرصورت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مزید کسی توسیع کے حق میں نہیں ہیں بشرطیکہ تمام سرکاری محکمہ جات کمیشن سے مکمل تعاون کریں۔ کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کمیشن سے ملاقات کے دوران تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں اپنی سنجیدگی کا اظہار کیا ۔ حکومت اپنے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی  میں سنجیدہ ہے۔ کمیشن کو ابھی تک موصولہ تفصیلات کے مطابق سرکاری محکمہ جات میں نان گزیٹیڈ یعنی نچلی سطح پر مسلم ملازمین کی نمائندگی 8 فیصد ہے جبکہ گزیٹیڈ اور اس کے اوپر کے درجہ میں مسلم نمائندگی بمشکل ایک فیصد ہے۔ کمیشن تعلیم ، ملازمت ، تجارت اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لے رہا ہے اور اسی بنیاد پر وہ اپنی رپورٹ تیار کرے گا۔ کمیشن کا احساس ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبہ میں ناانصافی کی گئی اور انہیں تحفظات کی فراہمی کے ذریعہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سدھیر کمیشن رپورٹ کی پیشکشی میں سنجیدہ ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جلد رپورٹ حاصل کرنے تیار نہیں کیونکہ رپورٹ کی پیشکشی کی صورت میں اسے فوری طور پر بی سی کمیشن قائم کرنا پڑے گا۔ الغرض سرکاری محکمہ جات کا کمیشن سے عدم تعاون حکومت کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت ہے۔ اگر واقعی حکومت سنجیدہ ہو تو اسے چاہئے کہ تمام محکمہ جات کے پرنسپل سکریٹریز کو ہدایات جاری کرے کہ کمیشن سے مکمل تعاون کیا جائے۔