ثانیہ مرزا کی مخالفت

ذہن و دماغ دہر کے ماؤف ہوگئے
قلب و نظر ہیں برسرِ پیکار جابجا
ثانیہ مرزا کی مخالفت
ہندوستان کی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو تلنگانہ ریاست کی برانڈ ایمبسڈر بنائے جانے پر بی جے پی کے مقامی قائدین میں جو ناراضگی پیدا ہوئی ہے وہ ان کی اوچھی ذہنیت اور چھوٹی سوچ کو ظاہر کرتی ہے ۔ ثانیہ مرزا ہندوستان کی وہ اسٹار ٹینس کھلاڑی ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے اور ثانیہ مرزا ہندوستان کی لاکھوں کروڑوں لڑکیوںکیلئے ایک رول ماڈل کہی جاسکتی ہیں جنہوں نے لڑکیوں میں ٹینس جیسے کھیل کا شعور بیدار کیا تھا ۔ ثانیہ مرزا وہ پہلی ہندوستانی ٹینس کھلاڑی ہیں جنہوں نے آسٹریلین اوپن جیسے گرانڈ سلام ٹورنمنٹ کے تیسرے راونڈ تک رسائی حاصل کی تھی ۔ دنیائے ٹینس کی کچھ بڑی اور معروف کھلاڑیوں نے بھی ثانیہ مرزا کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا تھا اور انہیں ایک بہترین کھلاڑی قرار دیا تھا ۔ ثانیہ مرزا حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے آبا و اجداد بھی حیدرآباد کیلئے نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ثانیہ مرزا کو ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست کی برانڈ ایمبسڈر مقرر کیا ہے جس پر بی جے پی کے قائدین چراغ پا نظر آتے ہیں۔ وہ بے بنیاد تنقیدیں کرتے ہوئے اپنی اوچھی ذہنیت ظاہر کر رہے ہیں۔ ثانیہ مرزا پر تنقیدیں کرنے والے تعصب کی عینک سے انہیں دیکھ رہے ہیں ورنہ سارے ہندوستان کے عوام ثانیہ مرزا کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور ٹینس کے کھیل میں ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ ملک کی معروف شخصیتوں اور مختلف شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے والی ہستیوں نے انہیں کئی موقعوں پر مبارکباد پیش کی ہے اور انہیں ہندوستان کی عظیم کھلاڑی اور دختر ہند قرار دیا ہے ۔ یہ ایسا اعزاز ہے جسے تعصب کی عینک سے دیکھنے والے بھی ان سے واپس نہیں لے سکتے ۔ وہ نہ صرف تلنگانہ کی برانڈ ایمبسڈر بنائے جانے کی اہلیت رکھتی ہیں بلکہ وہ ٹینس کے کھیل میں سارے ہندوستان کی برانڈ ایمبسڈر ہیں اور بھلے ہی حکومتیں یا مخصوص ذہنیت رکھنے والے اس کو قبول نہ کریں لیکن سارے ہندوستان کے عوام انہیں ٹینس میں اپنے ملک کی برانڈ ایمبسڈر سمجھتے ہیں۔ اس معاملہ میں کوئی تنازعہ نہیں ہوسکتا ۔ چونکہ وہ حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے باضابطہ طور پر انہیں تلنگانہ ریاست کی برانڈ ایمبسڈر مقرر کیا گیا ہے ۔
بی جے پی کے مقامی قائدین انہیں تلنگانہ کی برانڈ ایمبسڈر بنائے جانے پر معترض ہیں ۔ انہیں ثانیہ مرزا کی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی پر اعتراض ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ثانیہ مرزا کی پیدائش حیدرآباد میں یا تلنگانہ میں نہیں بلکہ ممبئی میں ہوئی تھی ۔ پیدائش کے مقام پر سوال کرنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کسی مقام پر پیدائش سے اس کا وطن بدل نہیں جاتا ۔ ثانیہ مرزا کی والدہ کو ان دنوں بہتر علاج کی ضرورت تھی اسلئے وہ ممبئی میں پیدا ہوئی اور صرف تین ہفتوں کی عمر میں وہ حیدرآباد منتقل ہوگئیں۔ اگر پیدائش ہی کوئی معیار ہے تو پھر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ بالی ووڈ کے میگا اسٹار امیتابھ بچن اتر پردیش سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا قیام مہاراشٹرا کے دارالحکومت ممبئی میں ہے اور وہ ریاست گجرات کے برانڈ ایمبسڈر بنائے گئے ہیں ۔ اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔ خود بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی اس مقام پر پیدا ہوئے جو آج پاکستان میں ہیں۔ ہندوستانی فلمی صنعت کی افسانوی شخصیت دلیپ کمار پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں ۔ کیا اس وجہ سے ان دونوں کو ہندوستان میں کسی اعزاز سے محروم کیا جاسکتا ہے ۔ کیا ایل کے اڈوانی اس عظیم ملک کے نائب وزیر اعظم نہیں رہے ؟ ۔ کیا اٹلی میں جنم لینے والی سونیا گاندھی نے اس ملک پر دو معیادوں تک حکومت کرنے والے یو پی اے اتحاد کی صدر نشین نہیں رہیں ؟ ۔ اگر ان سب کو ایسا کرنے کا موقع مل سکتا ہے تو پھر ثانیہ مرزا کو محض ممبئی میں پیدا ہونے پر تلنگانہ کی برانڈ ایمبسڈر بنائے جانے پر اعتراض کرنا اوچھی ذہنیت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔
اگر ثانیہ مرزا نے پاکستانی کرکٹ شعیب ملک سے شادی کی ہے تو یہ ان کی اپنی پسند کی بات ہے اور ذاتیات میں کسی کو دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ہمارے کئی نوجوان ایسے ہیں جو بیرونی ممالک میں تعلیم ‘ روزگار اور کاروبار کیلئے جاتے ہیں وہیں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں لیکن ہندوستان کی قومیت اور شہریت کو دل سے لگائے رکھتے ہیں کیا ان سب کو ملک میں کسی اعزاز یا رتبہ سے محروم کیا جاسکتا ہے ؟ ۔ ایسا ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔ ثانیہ مرزا نے شعیب ملک سے ضرور شادی کی ہے لیکن وہ آج بھی دنیا بھر میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹینس کھیلتی ہیں اور ہندوستانی شہریت پر انہیں ناز اور فخر ہے ۔ اس قابل فخر دختر ہند کے تعلق سے چھوٹی ذہنیت کی باتیں کرنا کسی کو ذیب نہیں دیتا ۔ ان کے برانڈ ایمبسڈر بنائے جانے والوں کو اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور جو فیصلہ حکومت تلنگانہ کیا ہے اس کی قدر کی جانی چاہئے ۔