بی جے پی کی امکانی تائید سے قائدین ناراض،پلینری کے مندوبین کی مخالفانہ رائے، چیف منسٹر اُلجھن کا شکار
حیدرآباد۔/28اپریل، ( سیاست نیوز) ملک میں کانگریس اور بی جے پی کے خلاف تیسرے محاذ کے قیام کی کوششوں میں مصروف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو خود اپنی پارٹی میں اس مسئلہ پر مخالفت کا سامنا ہے۔ پارٹی کے پلینری سیشن میں جو کل کوم پلی میں منعقد ہوا تھا تیسرے محاذ کی تشکیل کے مسئلہ پر مندوبین کی مخالفانہ رائے نے کے سی آر اور دیگر قائدین کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کے سی آر کے کسی فیصلہ پر پارٹی کے اندرونی حلقوں سے مخالفانہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ کے سی آر نے اگرچہ لیجسلیچر پارٹی اور ایکزیکیٹو کمیٹی کے اجلاس میں تیسرے محاذ کے مسئلہ پر اپنے منصوبوں سے واقف کرایا تھا لیکن پلینری میں مواضعات کی سطح سے ریاستی سطح تک کے قائدین شریک تھے اور پہلی مرتبہ یہ مسئلہ مندوبین میں بحث کا موضوع دیکھا گیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق چیف منسٹر کے خطاب سے قبل جب پارلیمانی پارٹی لیڈر کیشو راؤ نے اس مسئلہ پر قرارداد پیش کی تو مندوبین کی سردمہری کو دیکھتے ہوئے کے سی آر حیرت میں پڑ گئے۔ قرارداد کی تائید حاصل کرنے کیلئے کیشو راؤ کو مندوبین سے نعرے لگانے کی بارہا اپیل کرنی پڑی۔ کے سی آر کی آمد سے قبل میئر حیدرآباد رام موہن نے مندوبین کو ہدایت دی تھی کہ چیف منسٹر کی آمد کے ساتھ ہی ’’ دیش کا نیتا کے سی آر‘‘ اور’’ کے سی آر آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ جیسے نعرے لگائیں۔ نعروں کا ریہرسل بھی کیا گیا لیکن جب چیف منسٹر شہ نشین پر پہنچے اور مائیک میں نعروں کا آغاز ہوا تو مندوبین کی جانب سے جوش و خروش کی کمی صاف طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ چیف منسٹر نے اپنی تقریر کے دوران جب فیڈرل فرنٹ کے قیام اور اس کی ضرورت سے واقف کرایا تب بھی مندوبین میں کوئی خاص ردعمل نہیں دیکھا گیا۔ برخلاف اس کے کانگریس کے تلنگانہ قائدین پر کے سی آر کی تنقیدوں کے وقت مندوبین نے جم کر نعرہ بازی کی۔ بتایا جاتا ہے کہ تیسرے محاذ کے قیام کے مسئلہ پر بیشتر قائدین کی رائے ہے کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا لہذا اس طرح کی کوئی پیشرفت نہیں کی جانی چاہیئے۔ بعض قائدین نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کے سی آر تلنگانہ چھوڑ کر دہلی کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو اس سے تلنگانہ میں پارٹی کمزور ہوجائے گی۔ حکومت اور پارٹی پر گرفت کی برقراری کیلئے کے سی آر کو دہلی کی سیاست سے زیادہ ریاست کی سیاست پر توجہ دینی چاہیئے۔ ذرائع نے بتایا کہ تیسرے محاذ کیلئے چیف منسٹر کی بنگلور روانگی اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا سے ملاقات کے بعد پارٹی حلقوں میں مخالفت میں اضافہ ہوگیا کیونکہ دیوے گوڑا اور ان کے فرزند سابق میں بی جے پی کے ساتھ حکومت قائم کرچکے ہیں۔ کرناٹک کے انتخابات میں بھی دیوے گوڑا مخلوط اسمبلی کی صورت میں بی جے پی کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ ایسے میں ٹی آر ایس کی دیوے گوڑا کو تائید بالواسطہ طور پر بی جے پی کو تائید شمار کی جائے گی۔ بعض مندوبین نے وزرا اور عوامی نمائندوں کو بھی اپنی رائے سے واقف کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ حالات میں بی جے پی کی تائید کرنا مسلمانوں اور دیگر سیکولر ووٹ سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پلینری سیشن میں شریک اقلیتی قائدین میں سے کسی نے بھی اس مسئلہ پر اپنی رائے ظاہر نہیں کی بلکہ وہ کے سی آر کے اس موقف کی تائید میں دکھائی دیئے برخلاف اس کے غیر مسلم قائدین کھل کر اپنی رائے ظاہر کررہے تھے۔اجلاس کے آغاز سے قبل اور لنچ وقفہ میں تیسرے محاذ کے مسئلہ پر مندوبین کو آپس میں تبادلہ خیال کرتے دیکھا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر کے سی آر تیسرے محاذ کے اپنے منصوبہ کو آگے بڑھاتے ہیں تو ضلعی سطح پر پارٹی قائدین متحدہ موقف اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ بی جے پی کو فائدہ سے بچانے کیلئے بعض مندوبین کی رائے ہے کہ انتخابات کے موقع پر لوک سبھا کیلئے کانگریس اور اسمبلی کیلئے ٹی آر ایس کو ووٹ دینے کی اپیل کی جائے تاکہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار سے روکا جاسکے۔ پارٹی کے بیشتر قائدین تیسرے محاذ کیلئے کے سی آر کی مختلف قائدین سے ملاقات کے حق میں نہیں ہیں۔ قومی سیاست میں کے سی آر کی دلچسپی پر پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بے چینی اور ناراضگی سے کے سی آر خود بھی اُلجھن کا شکار ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ان کی حکمت عملی کیا رہے گی۔ چیف منسٹر 29 اپریل کو ڈی ایم کے قائدین سے ملاقات کیلئے چینائی روانہ ہوں گے جبکہ مئی کے پہلے ہفتہ میں سابق چیف منسٹر اترپردیش و سماج وادی پارٹی صدر اکھلیش یادو حیدرآباد میں کے سی آر سے ملاقات کرسکتے ہیں۔