حیدرآباد ۔ 23 ۔ نومبر : ( راست ) : مولانا غوثوی شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تیرہ تیزی کا لفظ ایک منحوس اصطلاح یا ایک خاص تلمیحی اشارہ ہے جس کا تعلق اصل میں توہمات و رسومات سے ہے ۔ تیرہ تیزی کی ایک توصیہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ تیرہ صفر کو آں حضور ﷺ کے مرض الموت کا آغاز ہوا ۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ تحقیق یہ ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین ﷺ 29 صفر بروز چہارشنبہ بستر پر فریش ہوئے ۔ یہ عالم اسلام اور ساری کائنات کے لیے یقینا ایک بہت ہی بڑا سانحہ ضرور تھا لیکن اسے تیرہ تیزی کا اثر نہیں کہا جاسکتا یہ اور بات ہے کہ اکثر عالمین و منجمین کے نزدیک صفر کا مہینہ بالعموم اور اس کی تیرہ تاریخ کو بالخصوص بلاؤں کے نزول کی تاریخ سمجھا گیا ہے ۔ جو اسلامی تعلیمات کے مغائر ہے جب کہ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے حاصل توحید یہی ہے کہ اللہ کے سواء کوئی شئے نفع یا نقصان دینے والی نہیں ہے ۔ چنانچہ جب یہ ایقان پختہ ہوجاتا ہے تو انسان بڑی سی بڑی نحوست کو خاطر میں نہیں لاتا اس لیے کہ وہ خود ہی ساری کائنات کے لیے مبارک قدم ہوجاتا ہے اور اس کی طبع قلندرانہ کا یہ عالم کہ :
مہر و مہ و نجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
اگر کوئی مسلمان متذکرہ حقائق کے باوجود بھی ’ تیرہ تیزی ‘ کے دن کچھ کرنا ہی چاہتا ہے تو وہ دو رکعت نفل نماز توبہ کی نیت سے پڑھ کر توبہ و استغفار کرے اور پھر دو رکعت نفل نماز ’ ردبلیات ‘ کی نیت سے پڑھ کر یہ دعا پڑھے ۔ اللھم احفظنامن کل بلاء الدنیا و عذاب الاخرۃ اور پھر کچھ صدقہ خیر ۔ خیرات کردے ۔ اس طرح توہم کی ظلمت بھی نور ہوجائے ۔۔