مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اسلام اخلاقی اعلیٰ قدروں پر یقین رکھتا ہے اس کی اولین ترجیح معاشرہ کا امن و امان ہے وہ نہیں چاہتا کہ معاشرہ میں جنگ و جدال ہو، قتل و خون ہو، اور آپسمیںکوئی بغض و عناد ہو ، اسلام ایسے سارے محرکات پر ایک مضبوط بندھ باندھتا ہے، جس سے دلوں میں دشمنی و عداوت پنپنے کا موقع ملتا ہے یا جس سے آپسی تعلقات اور روابط میں دراڑ قائم ہوتی ہے اور جس سے دل ٹوٹ جاتے ہیں، اسلام ہر ایسی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز پر نظر رکھتا ہے جس سے نفرت و عداوت کو راہ ملتی ہے، اور جس سے فتنہ و فساد پھیلتا ہے، سماج و معاشرہ کو تباہ و برباد کرنے والے بہت سے رزائلِ اخلاق میں سے ایک بری عادت تمسخر و استہزاء بھی ہے، اسلام نے اس کو سختی کے ساتھ منع کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا تمسخر نہ کرے یعنی ان کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے جنکا مذاق اڑایا جائے وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور نہ کوئی عورتوں کی جماعت دوسری عورتوں کا تمسخر کرے، کہ ممکن ہے جنکا مذاق اڑایا جائے وہ مذاق اڑانے والی عورتوں سے بہتر ہوں‘‘(۴۹؍ ۱۱)۔
تمسخر و استہزاء بہت بری عادت ہے، تمسخر کا مزاج رکھنے والوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ سماج کے بڑے معزز اشخاص ہیں اور دوسرے سارے افراد ان کی نگاہوں میں بے وقعت ہوتے ہیں، اپنا احترام تو ان کو عزیز ہوتاہے لیکن دوسرے انسانوں کا احترام ان کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتا، اسی وجہ سے یہ مرض سماج میں پنپتا ہے، اور جس سے کئی انسانوں کی دلآزاری ہوتی ہے، جن کا مذاق اڑایا گیا اگر وہ طاقتور ہوں تو اس سے جنگ و جدال کا بازار گرم ہوتا ہے، کمزور ہوں تو ظاہر ہے وہ کوئی بدلہ تو نہیں لے سکتے، لیکن منتقم حقیقی اللہ ہے اس کی قدرت ان کی مددگار ہوتی ہے، خالق کائنات کو کسی پر اور خاص طور پرکمزوروں پر ظلم ڈھانا ہرگز پسند نہیں، بسا اوقات انکے دل سے نکلنے والی آہیں مذاق اڑانے والوں کو تہس نہس کرنے کیلئے کافی ہوجاتی ہیں کیونکہ مظلوم کی آہیں راست عرش سے ٹکراتی ہیں۔ اس آیت پاک میں تین چیزوں سے منع کیا گیا ہے، ایک تو یہ کہ کسی مسلم بھائی کے ساتھ تمسخر و استہزاء کیا جائے دوسرے کسی پر طعنہ زنی کی جائے تیسرے یہ کہ کسیکو برے القاب سے پکارا جائے جس سے اسکی توہین ہوتی ہو یا وہ القاب اسے برے لگتے ہو ں، زبان سے کسی کا مذاق اڑایا جائے یا رویہ اور برتائو سے سخت ناپسندیدہ ہے، قرآنِ پاک میں جہاں بہت سے احکام دئے گئے ہیں اس میں عورتوں کے لئے الگ سے کوئی حکم نہیں دیا گیا بلکہ ایمان والوں کو دئے گئے حکم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، بعض خصوصی احکام میں جہاں مردوں کو کچھ احکام دئے گئے ہیں وہیں وہ احکام خاص طور پر عورتوں کو بھی الگ سے خطاب کر کے دئیے گئے ہیں، انہیں میں سے ایک تمسخر و استہزاء بھی ہے۔ چونکہ یہ خرابی مردوں کے بلمقابل عورتوں میں کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے ، ظاہر تو سب پر روشن رہتا ہے لیکن باطن کے احوال کی کسی کو خبر نہیں رہتی اس لئے اس آیت پاک میں اس کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور مذاق اڑانیوالوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ بہت ممکن ہے جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہ مذاق اڑانیوالوں سے بہتر ہوں اور اللہ کے ہاں ان کا مقام مذاق اڑانیوالوں سے بڑھ کر ہو۔ اللہ کے ہاں باطن کی پاکیزگی و طہارت ظاہری حسن و و جاہت سے زیادہ اہم ہے، حدیث پاک میں وارد ہے کہ اللہ سبحانہ کسی کی ظاہری صورت اور نہ اس کے ظاہری اعمال اور نہ اس کے مال پر نظر فرماتا ہے بلکہ اس کی نظر تو انسانی قلوب اور ان کی نیتوں پر ہوتی ہے، آخرت کی کامیابی کا انحصار ظاہری حسن و جمال، مال و دولت، جاہ و حشم، کی بنیاد پر نہیں رکھا گیا بلکہ باطن کی نورانیت اور اس کے اخلاص کی بنیاد پر ہے۔ کسی کی جسمانی ہیئت میںکسی نقص، یا اسکی شخصی کمزوریوں کو مذاق کا نشانہ بنانا دراصل اللہ کی تخلیق کا مذاق اڑانا ہے، سلف صالحین کا یہ معمول تھا کہ انسان تو انسان کسی جانور کی تحقیر سے بھی وہ بہت ڈرتے تھے، ایک اللہ والے سے کسی نے دریافت کیا کہ تم اللہ کے ہاں بہتر ہو یا یہ کہ یہ کتا بہتر ہے اس سوال کا انہوں نے کوئی برا نہیں مانا اور فرمایا کہ دیکھو اللہ کے ہاں میرا حال درست قرار پائے اور اللہ کی رضا مجھے حاصل ہو جائے تو پھر میں اس کتے سے بہتر ہوں اس کے برعکس معاملہ ہو جائے تو پھر میرا مرتبہ اس کتے سے بھی گیا گزرا ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کی نظر اپنے ظاہر کے بجائے باطن پر ہو اور اللہ کے ہاں اپنے مقام کی فکر اور آخرت کا خوف دامن گیر ہو تو وہ کسی کی ہجو نہیں کر سکتا نہ زبان سے اور نہ اپنے رویہ اور برتائو سے کسی کے لئے دل آزاری کا باعث بن سکتا ہے، اگر کسیکے ظاہری اعمال اور احوال غیر پسندیدہ ہوں تو اسکو بھی برا کہنے یا اسکا تمسخر اڑانے کی اسلام نے اجازت نہیں دی بہت ممکن ہے وہ اپنے برے اعمال پر نادم ہو اور اسکے قلبی احساسات اور باطنی کیفیات اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہوں کیا عجب ہیکہ اسکے باطنی معاملات اسکے ظاہری خرابیوں کا کفارہ بن جائیں۔ بسا اوقات کسی کے ظاہری احوال تو برے نظر آتے ہیں لیکن انکے باطنی احوال کچھ جدا ہوتے ہیں انکی ظاہری حالت پر نظر کیجاکر اگر انکا مذاق اڑایا جائے اور انکے ساتھ تمسخر کیا جائے تو اسمیں دنیا اور آخرت کے شدید نقصان و خسران کا خطرہ ہے، حدیث پاک میں ارشاد ہے: ’’بہت سے پھٹے حال اور غبار آلود افراد ایسے ہیں کہ ممکن ہے انکی ظاہری حالت کی وجہ انکو دھتکار دیا جائے اور انکی شخصیت نگاہوں میں نہ بھرنے سے انکے ساتھ نامناسب برتائو کیا جائے لیکن باطنی احوال کی خوبی کیوجہ وہ اس مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی بارے میں قسم کھا لیں اللہ سبحانہ اس کو پورا فرمادیتے ہیں۔
موجودہ دور اخلاقی انحطاط کا ہے ، انسانی و اخلاقی اقدار قصہ پارینہ بن چکے ہیں، احترام انسانیت عملاً مفقود ہے، غریب تو غریب ہیں وہ کس شمار میں وہ تو کسی کی نظروں میں جچتے ہی نہیں انسے تو کوئی سیدھے منہ بات کرنے تک کے روادار نہیں، سماج و معاشرہ میں جو کچھ مقام رکھتے ہیں انسے بھی ظاہر داری کا تعلق ہوتا ہے تاکہ مفادات متاثر نہ ہوں، اور کہیں کوئی نقصان و حرج نہ ہو، اس لئے یہ تعلقات بھی اخلاص پر مبنی نہیں ہیں۔ اسلام نے تو اپنوں اور غیروں کی کوئی تخصیص نہیں کی نہ دوست و دشمن میں کوئی امتیاز برتا، نہ ہی امیر و غریب بادشاہ و فقیر کے درمیان کوئی فرق روا رکھا بلکہ سب کو ایک انسان مانتے ہوئے انکو ایکدوسرے کیساتھ حسنِ سلوک اور اچھے برتائو کا مستحق جانا، تمسخر و استہزاء ظاہر ہے انسانیت کیلئے سمِ قاتل ہے، وہ کسیکے ساتھ بھی روا نہیں، امیر ہو کہ فقیر، بادشاہ ہو کہ رعایہ، کسی کا بھی مذاق اڑانیکی اجازت نہیں۔
سیاسی، سماجی، و معاشرتی ہر سطح پر تمسخر و استہزاء عام ہے اس اخلاقی خرابی نے مسلم سماج کی ایک بڑی خراب تصویر بنائی ہے جس سے اور قوموں کے ہاں انکی بے وقعتی ہو رہی ہے اور خود مسلم سماج میں اسکی وجہ سے جو دشمنی و عداوت اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے اس سے خود سماج بے چین ہے اور اس خرابی نے سماج کا سکون چھین لیا ہے ۔
اسلام کے دامن رحمت میں جنکو پناہ مل چکی ہے وہ تو ایمان سے محروم دیگر انسانوں کیلئے نمونہ ہیں، کسی مومن و مسلم سے تو ان اخلاقی خرابیوں کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا، یہ اسوقت ممکن ہے جبکہ انسے ایمان کے تقاضے پورے ہو رہے ہوں، اسلام کے نام لیوائوں کا فرض ہے کہ تمسخر و استہزاء اور ان جیسے سارے رذائل اخلاق سے اپنا دامن پاک رکھیں اور معاشرہ کو اپنے پاکیزہ کردار سے روشنی دکھائیں ۔