حیدرآباد ۔ یکم ۔ جنوری : ( آئی این این ) : کانگریس ایم ایل سی یادو ریڈی نے علاقہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تمام وزراء سے اس بات کی خواہش کی ہے کہ وہ ڈی سریدھر بابو کے قلمدان کو تبدیل کردئیے جانے کے خلاف احتجاجاً کرن کمار ریڈی کابینہ سے مستعفی ہوجائیں ۔ یہاں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے رکن قانون ساز کونسل یادو ریڈی نے کہا کہ سریدھر بابو سے ان کا قانون ساز اسمبلی امور کا قلمدان واپس لیا جانا علاقے تلنگانہ کے عوام کی توہین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزراء کے قلمدان کو تبدیل کرنے کا چیف منسٹر اگرچیکہ اختیار رکھتے ہیں تاہم ایسے وقت میں جب کہ تلنگانہ بل پر مباحث ہونے والے ہیں اس اہم قلمدان کو واپس لیا جانا انتہائی نا مناسب بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر اپنے اقدامات سے ایک غلط مثال قائم کررہے ہیں ۔ یادو ریڈی نے کہا کہ چیف منسٹر کا یہ اقدام اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنی خود کی جماعت تیار کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ انہوں نے کانگریس ہائی کمان سے خواہش کی کہ وہ کرن کمار ریڈی کے خلاف سخت کارروائی کریں ۔۔
سریدھر بابو کا نئی سیاسی پارٹی قائم کرنے کا عزم!
تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے اثر کو کم کرنے متبادل قوت کانگریس کی کوشش تو نہیں ؟
حیدرآباد ۔ یکم جنوری (سیاست نیوز) 2014 عام انتخابات کے پیش نظر کیا کانگریس پارٹی تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے اثر کو کم کرنے کیلئے متبادل قوت کو ابھارنے کی تیاری کر رہی ہے؟ ریاستی وزیر ڈی سریدھر بابو کے قلمدان کی تبدیلی اور ان کی جانب سے استعفیٰ کی دھمکی کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں کہ سریدھر بابو نئی تلنگانہ پارٹی قائم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر سریدھر بابو کابینہ سے استعفے کے فیصلہ پر برقرار رہیں گے تو ان کا اگلا قدم نئی سیاسی جماعت کی تشکیل ہوگا۔ اس طرح کانگریس پارٹی تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے اثر کو کمزور کرسکتی ہے۔ سریدھر بابو کا شمار تلنگانہ کے کٹر حامیوں میں ہوتا ہے اور وہ دیگر تلنگانہ قائدین کے مقابل میں عوام میں زیادہ مقبول ہیں۔ قلمدان کی تبدیلی کے بعد سریدھر بابو نے نئے قلمدان کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ ساتھ ساتھ اس بات کا اشارہ بھی دیا ہے کہ
وہ چیف منسٹر کے اس فیصلہ کے بعد کابینہ سے مستعفی ہوجائیں گے۔ انہوں نے اس مسئلہ پر پارٹی کے سینئر قائدین بشمول سابق صدر پردیش کانگریس ڈی سرینواس سے بھی ملاقات کی ۔ کانگریسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایس کی جانب سے کانگریس میں انضمام سے انکار کے سبب اس کی بڑھتی مقبولیت پر روک لگانا ضروری ہے، ورنہ عام انتخابات میں ٹی آر ایس واحد بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے گی ۔ اگر سریدھر بابو نئی تلنگانہ پارٹی قائم کرتے ہیں تو وہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے متبادل کے طور پر ابھرے گی۔ حالیہ عرصہ میں کریم نگر ضلع میں ٹی آر ایس نے سریدھر بابو کے خلاف مہم میں شدت پیدا کردی ہے ۔ خاص طور پر ریاستی اسمبلی میں مسودہ بل کی پیشکشی کے بعد ان پر غیر واضح موقف اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ ٹی آر ایس کو کریم نگر میں سریدھر بابو سے خطرہ لاحق ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر قلمدانوں کی تبدیلی کے تنازعہ کی یکسوئی نہیں ہوگی تو کانگریس تلنگانہ میں سریدھر بابو کی قیادت میں نئی تلنگانہ پارٹی کے قیام کے مسئلہ کو آگے بڑھائے گی۔ اس طرح نہ صرف ٹی آر ایس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھرنے کا خواب بھی ادھورا رہ سکتا ہے۔