تلگودیشم مہاناڈو

تلگودیشم کا مہاناڈو حالیہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا جشن تھا، صدر پارٹی چندرابابو نائیڈو نے پارٹی کی کامیابی کے لئے کیڈر کی جدوجہد کی ستائش کی اور انھیں پارٹی کا قیمتی اثاثہ قرار دیا۔ آندھراپردیش میں تلگودیشم کو 10 برس بعد اقتدار حاصل ہوا ہے۔ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک کا راست فائدہ دونوں ریاستوں کی پارٹیوں تلگودیشم اور ٹی آر ایس کو ہوا۔ تلنگانہ بنانے کا وعدہ پورا کرکے بھی کانگریس خسارہ میں رہی اور وائی ایس آر کانگریس کی آندھی کے خوف میں کانگریس نے آندھراپردیش کا اقتدار تلگودیشم کے حوالے کرنے میں معاونت کی۔ عرف عام میں کانگریس نے بنا بنایا نوالہ چندرابابو نائیڈو کے منہ میں ڈالا ہے۔ اب بحیثیت صدر پارٹی چندرابابو نائیڈو کی ذمہ داریوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ اپنی ریاست کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ان کے لئے کڑی آزمائش ہوگی۔ مرکز میں این ڈی اے سے ان کا اتحاد بھی ایک سیاسی دور اندیشی کا مظہر ہے۔ مرکز سے امداد کے حصول کے علاوہ نئی ریاست کے لئے خصوصی مالیاتی پیاکیج اور دیگر ترقیاتی کاموں میں مدد لی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی سے انھوں نے کئی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ حسب توقع مرکز سے وابستہ کی گئی اُمیدیں پوری ہوتی ہیں تو آندھرا کے عوام کا ووٹ رائیگاں نہیں جائے گا۔ مہاناڈو سے خطاب کرتے ہوئے چندرابابو نائیڈو نے اپنی ریاست کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ فصلوں پر حاصل کئے گئے قرضوں میں رعایت، خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کو قرضے دینے کی اسکیم نے انھیں مقبول بنایا ہے۔ تلگو کی دو ریاستوں کے وجود میں آنے سے تلگودیشم کو دوہرا فائدہ ہوا ہے۔ وہ اب آندھرا کے ساتھ ساتھ تلنگانہ میں بھی اپنے قدم جمائے گی اور انتخابی مقابلہ کرتے ہوئے تلگودیشم کو دوسری ریاستوں میں متعارف کرواکر اسے قومی پارٹی کا درجہ دلانے کا خواب دیکھنے والے چندرابابو نائیڈو کو اپنے معطل شدہ سیاسی سفرکا دوبارہ آغاز ایک نئے جوش و جذبہ سے کرنا ہے۔

لیکن وہ اپنی نئی ریاست کے 17,000 کروڑ روپئے کے خسارہ بجٹ کے ساتھ منصوبوں اور مقاصد کو کس طرح پورا کرسکیں گی، یہ ان کی سیاسی و حکمرانی کی صلاحیتوں پر منحصر ہوگا۔ چندرابابو نائیڈو کی سیاسی بصیرت و فراست اور سیانے ہونے کے ان کے ناقدین بھی اس وقت معترف ہوں گے جب وہ دونوں ریاستوں کے تلگو عوام کے مسائل کی یکسوئی کا کامیاب مظاہرہ کریں گے۔ تلنگانہ میں بھی تلگودیشم کو اچھے اور خاطر خواہ ووٹ ملے ہیں تو یہاں بھی پارٹی کے پہلے سے زیادہ بڑھانے کی ان کی کوشش جاری رہتی ہے تو کم از کم پارٹی کو دفاعی موقف حاصل ہوگا۔ دس سال کے عرصہ میں چندرابابو نائیڈو نے پارٹی کو مضبوط بنانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ وائی ایس آر کانگریس کی موجودگی نے بھی پارٹی کو زیادہ پریشان نہیں کیا ہے تو باقی کی منزلیں بھی آسانی سے طے ہوں گی۔ تلنگانہ اور آندھرا کی حکومتوں کے درمیان بہتر روابط اور عوامی مفادات کو ترجیح دے کر حکمرانی کے فرائض انجام دیئے جاتے ہیں تو اس سے آپسی اختلافی صورت اُبھرنے نہیں پائے گی۔ ان دنوں سیما آندھرا کے سرکاری ملازمین کا مسئلہ اور محکمہ جات کی تقسیم کے مسئلہ پر جو تنازعات اور اختلافات پیدا ہورہے ہیں ان کی خوشگوار انداز میں یکسوئی کرلی جانی چاہئے۔ چندرابابو نائیڈو نے ماضی میں آندھراپردیش میں حکمرانی کرکے جو عزت کمائی تھی اس کے عوض آج انھیں دوبارہ اقتدار ملا ہے۔ بلاشبہ کسی بھی فرد، لیڈر اور ادارہ یا پارٹی کو عزت ملتی ہے تو اپنے کاموں سے، خلوص سے، اخلاق سے اور اعلیٰ کردار سے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کا عزت کا ترازو میں وزن الگ الگ اور اپنا اپنا ہوتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے آندھرا کے عوام نے تلگودیشم کو دوبارہ عزت بخشی ہے تو چندرابابو نائیڈو اس فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے عوام کی بہتر خدمت انجام دیتے ہیں تو یہ ان کے انتخابی وعدہ کی بہترین تکمیل ہوگی۔

یہ پہلو نہایت خوشگوار اور طمانیت بخش ہے کہ چندرابابو نائیڈو نے دونوں ریاستوں کے عوام کی معاشی ترقی کے لئے حتی الوسع اعانت فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مہاناڈو سے خطاب کرتے ہوئے نائیڈو نے اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کی حکمرانی کے منصوبے بناتے ہیں تو لہذا بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں سابق کی طرح سیاسی تدبر اور معاملہ فہمی کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کی بنیاد پر حکمرانی کا ہر قدم سوچ سمجھ کر اُٹھائیں اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے۔ تلگودیشم کو قومی پارٹی کا درجہ دینے کی آرزو میں اگر وہ اپنی ریاست پر توجہ دینے میں کوتاہی کریں گے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہر پارٹی کو اپنی سیاسی وقعت کی خواہش ہوتی ہے۔ ملک کی دیگر علاقائی پارٹیوں جیسے بہوجن سماج پارٹی کی حالیہ شکست اور اس کے قومی عزائم کے انجام سے ہر کوئی واقف ہوچکا ہے۔ چندرابابو نائیڈو کو اس وقت اپنی نئی ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر سب سے زیادہ دھیان دینا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تلگودیشم نے ماضی میں قومی سطح پر اہم رول ادا کیا ہے۔ اس مرتبہ بھی تلگودیشم کو قومی سطح پر اہم رول کا موقع ملا ہے۔ پارٹی کے بانی لیڈر این ٹی راما راؤ نے تمام غیر کانگریس پارٹیوں کو متحدکرکے قومی محاذ بھی بنایا تھا مگر بعدازاں یہ محاذ اختلافات اور حالات کی نذر ہوگیا۔ اس وقت عوام کا سب سے اہم مسئلہ مہنگائی، قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور رشوت ستانی ہے۔ اس جانب توجہ دینا وقت کا تقاضہ ہے۔