تلنگانہ ‘ آندھرا کو مرکز کا مشورہ

تکرار سے کیا حاصل ہوگا‘ نقصان ہے اس میں دونوں کا
اک لمحہ بھی گرضائع ہو ہم پسماندہ رہ جائیں گے
تلنگانہ ‘ آندھرا کو مرکز کا مشورہ
تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے مابین گذشتہ ہفتوں سے جو ماحول پیدا ہوا ہے وہ سبھی کیلئے باعث حیرت ہے ۔ دونوں ریاستوں میں برسر اقتدار جماعتوں نے ایک دوسرے پر تنقیدوں و جوابی تنقیدوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ ناقابل یقین کہا جاسکتا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ دونوں ریاستوں کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی ریاست میں مقدمات درج کروانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ قائدین دونوں ریاستوں کے مشترکہ گورنر کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے کام کاج پر سوال کیا جا رہا ہے ۔ تلگودیشم پارٹی کا کہنا ہے کہ تقسیم ریاست آندھرا پردیش قانون کے تحت حیدرآباد میں لا اینڈ آرڈر گورنر کے دائرہ اختیار میں ہے لیکن تلنگانہ حکومت گورنر کو مزید اختیارات کو قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ ٹی آر ایس نے یہ بات واضح کردی ہے کہ اسے حیدرآباد پر گورنر کے اختیارات پر اعتراض ہے ۔ دونوں جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ گورنر کے دستوری عہدے کو بھی تنازعہ میں گھسیٹ رہے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومتنے دونوں ہی ریاستوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس تعلق سے صبرو تحمل سے کام لیں۔ خاص طور پر مرکزی وزیر ایم وینکیا نائیڈو نے جو ریاست کے حالات سے بخوبی واقف ہیں اور آندھرا پردیش سے تعلق رکھتے ہیں‘ دونوں ریاستوں کے قائدین اور خاص طور پر وزرا کومشورہ دیا ہے کہ وہ گورنر کو تنقید کا نشانہ بنانے میں صبروتحمل سے کام لیں۔ انہوں نے دونوں ہی جماعتوں تلگودیشم اور ٹی آرایس کو اپنے اپنے بیانات پر احتساب کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا کہ ان جماعتوں کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی اپنی ریاست کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ وینکیا نائیڈو ایک طرح سے دونوں جماعتوں کو اخلاقیات کا درس دے رہے تھے لیکن انہیں بھی اس بات کا اعتراف ہونا چاہئے کہ دونوں ریاستوں تلنگانہ و آندھرا پردیش کے قائدین میں جو اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ان کے بعد اس طرح کا اخلاقی درس اثر انداز نہیں ہوپائیگا ۔ اخلاقیات کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کوا ن دونوں ریاستوں کے معاملات کو از خود مداخلت کرتے ہوئے سلجھانے کی ضرورت ہے ۔
تلنگانہ و آندھرا پردیش کے مابین مختلف مسائل پر اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ عہدیداروں کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا پھر دریائوں کے پانی کی تقسیم ہو۔ ہر مسئلہ پر ایک دوسرے سے اختلاف کو دونوں ہی ریاستوں نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے ۔ گذشتہ دنوں جب تلنگانہ چیف منسٹر چندر شیکھر رائو نے آبپاشی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا تو آندھرا کی قیادت اور وزرا نے اس کے خلاف اظہار خیال کیا اورمرکزی حکومت سے نمائندگی بھی کی گئی ۔ اب نوٹ برائے ووٹ اسکام ہو یا پھر ٹیلیفون ٹیپنگ ٹا معاملہ ہو اس پر جس حد تک دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے وہ دونوں ہی ریاستوں اور وہاں کے عوام کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ اس سے عوام کہیں پس منظر میں چلے جا رہے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی بجائے محض سیاست بازی ہو رہی ہے اور بیان بازیوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اب جبکہ مرکزی وزیر نے دونوں ریاستوں کے قائدین کو احتیاط سے کام لینے اور صبرو تحمل برتنے کا مظاہرہ کیا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ دونوں ریاستوںکے مابین اختلافات کی یکسوئی کیلئے بھی پہل کریں۔ دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کی ملاقاتیں گورنر سے ہوئی ہیں لیکن یہاں مسائل حل نہیں ہوسکے ہیں ۔ ان دونوں کو مرکزی حکومت کی جانب سے مدعو کرتے ہوئے ان کے درمیان مسائل اور اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ مرکزی حکومت کا یہ رول موجودہ حالات میں ضروری ہوگیا ہے ۔ صرف مشوروں اور تلقین سے کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔
نوٹ برائے ووٹ اسکام ہو یا پھر ٹیلیفون ٹیپنگ کی شکایات ہوں ان معاملات میں قانون کو اپنا کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور کسی بھی معاملہ میں سیاسی مداخلت سے گریز ہونا چاہئے ۔سرکاری ایجنسیوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال کرنے کا رجحان ختم ہونا چاہئے ورنہ ہر سیاسی جماعت اپنے دور اقتدار میں انتقام کی راہ اختیار کریگی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ ایسے میں اگر سب سے زیادہ نقصان ہوگا تو دونوں ریاستوں کے عوام کا ہوگا ۔ ان کی فلاح و بہبود کے پروگرام کہیں پس منظر میں چلے جائیں گے اور ان کی اہمیت و افادیت بتدریج گھٹتی چلی جائیگی ۔ حکومت کی ترجیحات بدل جائیں گی ۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ واقعتا دونوں ریاستوں کے معاملات میں مداخلت کرے اور ان کے مابین تمام امور کو باہمی قابل قبول انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے ۔ ۔ دور سے تماش بینی کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے ۔