اسمبلی میں دو قوانین میں ترامیم کو منظوری ۔ کانگریس کا احتجاج اور ایوان سے واک آوٹ
حیدرآباد۔/29مارچ، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کی تمام یونیورسٹیز میں اب حکومت ہی چانسلر اور وائس چانسلر کا تقرر کرے گی۔ اس سلسلہ میں تلنگانہ اسمبلی میں آج دو قوانین میں ترمیم کو منظوری دے دی گئی۔ کانگریس پارٹی کے واک آؤٹ کے دوران ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ترمیمی بل 2016 اور راجیو گاندھی یونیورسٹی آف نالج ٹکنالوجیز ترمیمی بل 2016 کو منظوری دے دی گئی۔ بی جے پی، تلگودیشم، وائی ایس آر کانگریس اور سی پی آئی نے بھی بلز کی مخالفت کی تاہم انہوں نے ایوان سے واک آؤٹ نہیں کیا۔ مجلس نے بل کی تائید کی ہے۔ اپوزیشن نے اندیشہ ظاہر کیا کہ حکومت کی جانب سے ہر یونیورسٹی کے لئے چانسلر اور وائس چانسلر کے تقرر سے تعلیمی معیار متاثر ہوگا اور سیاسی مداخلت بڑھ جائے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ریاستی گورنر کو تمام یونیورسٹیز کے چانسلر کی حیثیت سے برقرار رکھنے کی تائید کی اور کہا کہ موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے یونیورسٹیز کو بچایا جاسکتا ہے۔ دونوں ترمیمی قوانین کے ذریعہ حکومت نے ہر یونیورسٹی کیلئے علحدہ چانسلر کے تقرر کا اختیار حاصل کرلیا ہے اس کے علاوہ وائس چانسلر کا تقرر بھی حکومت سرچ کمیٹی کے سفارش کردہ ناموں میں سے کرے گی۔ دوسرے ترمیمی بل کے ذریعہ راجیو گاندھی یونیورسٹی آف نالج ٹکنالوجیز میں ایکزیکیٹو کونسل کو برخواست کردیا گیا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ڈپٹی چیف منسٹر و وزیر تعلیم کڈیم سری ہری نے ارکان کو یقین دلایا کہ قوانین میں ترمیم کا مقصد سیاسی مداخلت میں اضافہ کرنا نہیں ہے بلکہ گورنر بیک وقت کئی یونیورسٹیز کے چانسلر کی حیثیت سے یونیورسٹیز کے اُمور کیلئے زائد وقت دینے سے قاصر ہیں۔ کڈیم سری ہری نے کہا کہ گجرات، راجستھان اور ہماچل پردیش ریاستوں نے اسی طرح کے قوانین پاس کئے ہیں تاکہ یونیورسٹیز میں معیار تعلیم کو بہتر بنایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ آندھرا پردیش تنظیم جدید قانون کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو گورنر کا مکمل احترام ملحوظ ہے اور ان پر عدم اعتماد سے متعلق اندیشے بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کے احترام میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف انتظامی سہولت کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو چانسلر اور وائس چانسلر کے عہدوں پر مامور کیا جائے گا۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ یونیورسٹیز کو خود مختار موقف دیئے جانے سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا حوالہ دیتے ہوئے چیف منسٹر نے کہا کہ اس تاریخی یونیورسٹی کی سینکڑوں ایکر اراضی پر ناجائز قبضے ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر ایک یونیورسٹی کے چانسلر کے کے عہدہ پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ہائی کورٹ کے ججس، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججس، آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں کو مقرر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس فیصلہ کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق میں کاکتیہ، تلنگانہ اور عثمانیہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلرس کی مبینہ بے قاعدگیاں منظر عام پر آئیں اور حکومت کو تحقیقات کا اعلان کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ وائس چانسلرس نے ریٹائرمنٹ کے دن ہی سینکڑوں افراد کا تقرر کیا جو کرپشن پر مبنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ قانونی ترمیم کے سلسلہ میں گورنر سے منظوری حاصل کرلی گئی ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ سیاسی شخصیتوں کو یونیورسٹیز پر مامور کرنا حکومت کا مقصد نہیں ہے۔ تلنگانہ اور عوام کی ضرورت کے عین مطابق یہ فیصلہ کیا گیا۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے انہوں نے بعض ججس کے نام تجویز کرنے کی خواہش کی ہے۔ کے سی آر نے کہا کہ حیدرآباد میں سپریم کورٹ کے بعض ریٹائرڈ ججس موجود ہیں جنہوں نے کافی نام کمایا۔ ان شخصیتوں میں جسٹس قادری اور جسٹس جیون ریڈی شامل ہیں۔ حکومت ایسی شخصیتوں کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ چیف منسٹر نے تجویز پیش کی کہ وائس چانسلر کے تقرر سے متعلق کمیٹی میں قائد اپوزیشن کو شامل کیا جائیگا۔ کانگریس کے ڈپٹی لیڈر جیون ریڈی نے کہا کہ اس فیصلہ سے یونیورسٹیز کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کی یونیورسٹیز میں ایکزیکیٹو کونسل نہیں ہیں اور 50فیصد ٹیچنگ اسٹاف بھی نہیں ہے۔ انہوں نے ہر یونیورسٹی کیلئے علحدہ چانسلر کی مخالفت کی اور کہا کہ تمام یونیورسٹیز کے چانسلر کی حیثیت سے گورنر کی برقراری پر ٹی آر ایس کو کیا اعتراض ہے۔ اچانک گورنر کے بارے میں کیوں شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر جی چنا ریڈی (کانگریس) نے بھی حکومت کی تجویز سے اختلاف کیا۔ بی جے پی کے ڈاکٹر لکشمن، تلگودیشم کے وینکٹ ویریا، سی پی آئی رکن رویندر کمار اور وائی ایس آر کانگریس رکن پی وینکٹیشورلو نے بھی بلز کی مخالفت کی۔