تلنگانہ کے خانگی اسکولس کو قوانین کے مطابق کرنے کے اقدامات کا آغاز

سرکاری نصاب کا حکم بے اثر ، حکومت کے احکامات بے خاطر ، احکامات کی سراسر خلاف ورزی
حیدرآباد ۔ 26 ۔ جون (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے خانگی اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے اور انہیں قوانین کے مطابق کرنے کے اقدامات کا کاغذی طور پر آغاز ہوچکا ہے لیکن عملی طورپر محکمہ تعلیم کے عہدیدار خانگی اسکولوں سے اب بھی مرعوب نظر آرہے ہیں۔ حکومت تلنگانہ نے تمام خانگی اسکولوں میں سرکاری تعلیمی نصاب لازمی قرار دینے کے علاوہ دیگر کئی احکامات حالیہ عرصہ میں جاری کئے ہیں لیکن ان احکامات کا 50 فیصد اثر بھی خانگی اسکولوں پر نہیں دیکھا جارہا ہے بلکہ کئی ایسے اسکولس جو کارپوریٹ انداز میں چلائے جاتے ہیں، وہ تو حکومت کے ان احکامات کو خاطر میں لانے کیلئے بھی تیار نہیں ہے اور ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ ان احکامات سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کارپوریٹ طرز پر چلائے جانے والے بڑے اسکولس جہاں پر ضلعی ایجوکیشن عہدیدار کی رسائی تک محال تصور کی جاتی ہے ایسے اسکولس میں باضابطہ اسٹیشنری اور تعلیمی نصاب فروخت کیا جارہا ہے لیکن محکمہ تعلیم کے عہدیدار بعض اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔ حالیہ دنوں میں جاری کئے گئے احکامات کے مطابق اسکولوں کو اس بات کی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اسکول میں وصول کی جارہی ٹیوشن فیس کے علاوہ دیگر فیس کی تفصیل آفس کے باہر نصب کریں تاکہ اولیائے طلبہ کو اس بات کا علم ہوسکے کہ حکومت کی جانب سے منظورہ فیس کے علاوہ اسکول میں کوئی زائد فیس وصول نہیں کی جارہی ہے۔ ان احکامات سے قبل اسکول کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کے اخراجات کے تقسیم کے تختہ جات ختم ستمبر سے قبل پیش کردینے کی بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ قوانین کے مطابق جو فیس وصول کی جاتی ہے ، اس کی صرف پانچ فیصد آمدنی پر انتظامیہ کا حق ہوتا ہے جبکہ دیگر آمدنی، ادارہ کی ترقی و ملازمین پر صرف کرنی ہوتی ہے۔ غیر منقسم ریاست آندھراپردیش میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ احکامات پر سختی سے عمل آوری نہیں ہوا کرتی تھی لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت تمام قوانین کا استعمال کرتے ہوئے خانگی اداروں کو تجارتی مراکز میں تبدیل ہونے سے روکنے کے اقدامات کرے گی۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی نصاب کے متعلق جاری کردہ احکام کو چیلنج کرتے ہوئے بعض خانگی اسکولوں کے ذمہ داران عدالت سے رجوع ہوئے ہیں اور تعلیمی سال کا آغاز ہوئے قریب دو ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی اس سلسلہ میں تاحال کوئی واضح احکام عدالت نے جاری نہیں کئے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ یکم جولائی کو اس سلسلہ میں کوئی قطعی فیصلہ عدالت کی جانب سے کیا جائے گا لیکن حکومت کا استدلال ہے کہ حکومت تمام بچوںکو یکساں تعلیم کی فراہمی کی غرض سے اعلیٰ اور معیاری نصاب تیار کرچکی ہے اور امیر و غریب تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوںکو ایک ہی نصاب پڑھایا جائے گا تاکہ ایک ہی نصاب پڑھنے والے بچوں کے درمیان اگر مسابقت ہوتی ہے تو ان کی صلاحیت کی بنیاد پر ہوگی۔