تلنگانہ کا تعلیمی ترقی پر مختص بجٹ جنوبی ریاستوں میں سب سے کم

حکومت کا ادعا صورتحال کو ابتر کرنے کے مترادف ، ریاست کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ

حیدرآباد۔24فروری(سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ کو ملک بھر میں نمبر ون حیثیت حاصل ہونے کی دہائی دینے والی حکومت کے نمائندے اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ ریاست تلنگانہ میں تعلیمی ترقی کیلئے فراہم کیا جانے والا بجٹ جنوبی ہند کی ریاستوں میں سب سے کم کیوں ہے؟ ریاست تلنگانہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں تعلیمی بجٹ کی تخصیص میں سب سے پیچھے ہوچکی ہے اور کہا جا رہاہے کہ ریاست تلنگانہ میں مختص کیا جانے والا بجٹ جنوبی ہند کی ریاستوں میں سب سے کم ہے ۔ جنوبی ہند کی ریاستوں میں کیرالہ‘ ٹامل ناڈو‘ کرناٹک اور آندھرا پردیش میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے تحت جو رقم خرچ کی جارہی ہے وہ ریاست تلنگانہ سے کافی زیادہ ہے اور حکومت تلنگانہ نے گذشتہ 5برسوں کے دوران تعلیمی بجٹ کو بتدریج گھٹایا ہے جو کہ ریاست کی تعلیمی صورتحال کو ابتر کرنے کے مترادف ہے ۔ گذشتہ دنوں ریاستی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے علی الحساب عبوری بجٹ کے دوران حکومت نے ریاست میں تعلیمی ترقی اور شعبہ تعلیم کیلئے جو فنڈ مختص کیا ہے وہ جملہ بجٹ کا صرف 6.7 فیصد ہے جو کہ ریاست کی تعلیمی ترقی کے لئے ناکافی تصور کیا جا رہاہے ۔ 1954میں بی جی کھیر کمیٹی کی سفارشات کے مطابق مرکز کو تعلیمی ترقی کیلئے 10فیصد بجٹ کا حصہ مختص کرنا چاہئے جبکہ ریاستوں کو دی گئی سفارشات کے مطابق ریاستوں کو تعلیمی ترقی کیلئے 20 فیصد بجٹ کی تخصیص عمل میں لانی چاہئے جبکہ ریاست تلنگانہ میں مجموعی اعتبار سے ان سفارشات کے برخلاف 13فیصد بجٹ کم مختص کیا گیا ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ریاست میں رہائشی و اقامتی اسکولوں کی اسکیم کو منفرد قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ ملک بھر میں کسی بھی ریاست میں ایسی اسکیم نہیں چلائی جا رہی ہے جبکہ ریاست میں موجود دیگر سرکاری اسکولوں کی حالت بتدریج ابتر ہوتی جا رہی ہے اور اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کے بجائے بجٹ میں کی جانے والی تخفیف ناقابل فہم ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات کے باوجود حکومت کی جانب سے یہ کہا جار ہا ہے کہ حکومت نے ریاست میں تعلیمی صورتحال کا جائز ہ لینے کے بعد ہی یہ اقدامات کئے ہیں جبکہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کے تقرر کے سلسلہ میں متعدد نمائندگیوں کے باوجود کئی جائیدادیں مخلوعہ ہیں اور ان جائیدادوں کو پر کرنے کے اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں اسی طرح ریاستی جامعات میں موجود مخلوعہ جائیدادوں کو پر کرنے کے اقدامات میں بھی حکومت کی ناکامی عیاں ہوچکی ہے اور ریاست میں تعلیمی ترقی کیلئے صرف 6.7 فیصد بجٹ کی تخصیص کے ذریعہ حکومت نے ثابت کردیا کہ ریاست کے طلباء و طالبات کی تعلیمی ترقی سے حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔حکومت تلنگانہ کی جانب سے چلائی جانے والی رہائشی اسکولوں کے قیام کی اسکیم قابل ستائش ہے لیکن وہ اسکول جو برسوں سے روایتی تعلیم فراہم کر رہے ہیں ان اسکولوں کی سمت عدم توجہی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے سرکاری تعلیمی ادارہ جات کو باقی رکھنے میں کوئی پہل کرنے کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ حکومت کی جانب سے سرکاری تعلیمی ادارۂ جات کو برخواست کرنے کی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔حکومت تلنگانہ کو شائد اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ بیرون ملک مغربی ممالک اور آسٹریلیاء میں ہندستانی طلبہ کو کافی مواقع حاصل ہیں اور ان ممالک میں چلائی جانے والی انفارمیشن ٹیکنالوجی صنعت میں جنوبی ہندریاستوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے اگر ریاست تلنگانہ کے تعلیمی بجٹ میں تخفیف کی جاتی ہے اور نوجوانوں کو مواقع حاصل نہیں ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں ان مغربی ممالک کے علاوہ آسٹریلیاء و دیگر مقامات پر جنوبی ہند کی دیگر ریاستوں کے نوجوانوں کو زیادہ مواقع مسیر آنے لگیں گے جو کہ ریاست اور ملک کی معیشت کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔حکومت تلنگانہ نے سال 2019-20 کے علی الحساب بجٹ میں شعبہ تعلیم کیلئے 12ہزار 220 کروڑ 50لاکھ روپئے مختص کئے ہیں جبکہ سال گذشتہ 13ہزار 278 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے اور مالی سال 2018-19کے دوران ہی اس بجٹ کو خود محکمہ تعلیم کے عہدیداروں نے ناکافی قرار دیا تھا اور اس مرتبہ کی گئی بجٹ کی تخصیص سے محکمہ تعلیم کے اعلی عہدیدار بھی خوش نہیں ہیں اور کہا جا رہاہے کہ نئے پراجکٹس کے آغاز اور مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کے عمل کو شروع کرنے کے لئے محکمہ کو اب از سر نو غور کرنا پڑسکتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے اعلی عہدیداراس بجٹ کو موجودہ نظام کی بہتری کیلئے بھی ناکافی تصور کرنے لگے ہیں۔