ہائیکورٹ میں قانونی جانچ کا موضوع ممکن، وقف پروٹیکشن تنظیموں کی عدالت سے رجوع ہونے کی تیاری
حیدرآباد۔یکم جولائی،( سیاست نیوز) کیا موجودہ تلنگانہ وقف بورڈکی تشکیل وقف ایکٹ کے مطابق ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ بہت جلد ہائی کورٹ میں قانونی جانچ کا موضوع بن سکتا ہے۔ موجودہ وقف بورڈ کی تشکیل کو 2004 میں بورڈ کو کالعدم قرار دینے سے متعلق سرکاری اعلامیہ کے تناظر میں چیالنج کرتے ہوئے وقف پروٹیکشن سے متعلق تنظیمیں ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کی تیاری میں ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ موجودہ بورڈ کی تشکیل وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 16 کے خلاف ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ کالعدم کردہ بورڈ کے ارکان کو دوبارہ بورڈ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ بورڈ میں 2 ارکان ایسے ہیں جو کالعدم کردہ بورڈ میں شامل تھے لہذا حکومت کی جانب سے فبروری میں تشکیل شدہ تلنگانہ وقف بورڈ کو چیالنج کیا جارہا ہے۔ 2004 میں اسوقت کے سکریٹری اقلیتی بہبود نے بورڈ کو کالعدم کرتے ہوئے گزٹ نوٹیفکیشن نمبر 271 جاری کیا تھا۔ اسوقت کے کالعدم کردہ بورڈ میں موجودہ دو ارکان محمد سلیم اور اکبر نظام الدین موجود تھے۔ 2004 میں بورڈ کو کالعدم کرتے ہوئے جاری کردہ گزٹ نوٹیفکیشن میں اسوقت کے سکریٹری اقلیتی بہبود ڈاکٹر پریم چند کے مطابق حکومت نے جب دیکھا کہ وقف بورڈ 1995 وقف ایکٹ کے تحت فرائض انجام دینے سے قاصر ہے لہذا تمام ارکان کو نوٹس جاری کی گئی۔ اسوقت کے بورڈ پر الزام تھا کہ ایجنڈہ کے 137 اُمور کو جو اہم اوقافی اداروں کے منیجنگ کمیٹیوں، متولیوں سے متعلق تھے انہیں بار بار زیر التواء رکھا گیا۔ 4 مرتبہ ایجنڈہ آئیٹمس کو کسی نہ کسی بہانے التواء میں رکھا گیا جس کے سبب اوقافی اداروں کو بھاری نقصان ہوا۔ بعض ایجنڈہ آئیٹمس کو کسی فیصلہ کے بغیر پانچ مرتبہ زیر التواء رکھا گیا جس کے سبب وقف بورڈ کو کئی لاکھ روپئے کا وقف فنڈ حاصل نہیں ہوسکا۔ ایک رکن کی جانب سے ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کے بعد عدالتی ہدایت پر بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ گزٹ نوٹیفکیشن میں کہا گیاکہ ارکان کی جانب سے داخل کردہ وضاحتوں اور اجلاس کی روئیداد کا جائزہ لینے کے بعد حکومت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ صدرنشین اور ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات عائد کئے۔ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ صدرنشین اور ارکان کے درمیان کوئی باہمی تعاون اور تال میل نہیں ہے۔ گزٹ کے مطابق کروڑہا روپئے مالیتی اوقافی جائیدادوں سے متعلق ایجنڈہ آئیٹمس کو زیر التواء رکھا گیا اور 2 ارکان نے صدرنشین پر بھی الزامات عائد کئے۔ وقف اُمور کے ماہرین کے مطابق وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 16 کے تحت کالعدم کردہ بورڈ کے ارکان کو دوبارہ بورڈ میں شامل نہیں کیا جاسکتا جبکہ ان پر وقف بورڈ اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بورڈ کی تشکیل سے قبل عہدیدار مجاز وقف بورڈ حکومت کو وقف ایکٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے۔ وقف ایکٹ کے تحت جن ارکان کے سبب بورڈ کو نقصان ہوا ہے اور پھر جنہوں نے الزامات بھی قبول کرلئے ہیں انہیں اخلاقی طور پر دوبارہ ممبر یا صدرنشین نامزد نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ پر محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار اور وقف بورڈ کے عہدیدار کسی بھی تبصرہ سے گریز کررہے ہیں کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں کسی بھی وقت جاسکتا ہے۔ موجودہ بورڈ کے بارے میں بھی یہ شکایات عام ہیں کہ اہم ایجنڈہ آئیٹمس کو متواتر زیر التواء رکھا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی اہم اوقافی جائیدادوں پر جاری غیر مجاز تعمیرات کو روکنے میں بھی بورڈ کو ناکامی ہوئی ہے۔