حیدرآباد۔/7فبروری، ( سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کی تشکیل میں تاخیر سے ایک طرف عوام میں الجھن پائی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کا فائدہ اٹھاکر وقف بورڈ میں متنازعہ فیصلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قواعد کے مطابق وقف بورڈ کی تشکیل کا عمل شروع ہوتے ہی عہدیدار کوئی اہم فیصلہ نہیںکرسکتے اور اہم فیصلوں کو منتخب ہونے والے بورڈ پر چھوڑنا چاہیئے لیکن یہاں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ وقف بورڈ کی تشکیل کیلئے حکومت نے اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے بعد پہلے مرحلہ میں 6 ارکان کا انتخاب عمل میں آیا جو 4 مختلف زمروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت کو مزید چار تا پانچ ارکان کی نامزدگی کے ذریعہ بورڈ کی تشکیل کا اعلامیہ جاری کرنا تھا لیکن ایک ماہ گذرنے کے باوجود آج تک اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بورڈ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ارکان کے انتخاب کے ایک ماہ گذرنے کے باوجود حکومت نے نامزد ارکان کے ناموں کو قطعیت نہیں دی ہے۔ اکثر دیکھا گیا کہ حکومت نامزد ارکان کے ناموں کا پہلے ہی انتخاب کرلیتی ہے اور رائے دہی سے منتخب ہونے والے ارکان کے انتخاب کی تکمیل کے ساتھ ہی بورڈ کی تشکیل کا اعلامیہ جاری کردیا جاتا ہے لیکن تلنگانہ وقف بورڈ کے سلسلہ میں نامعلوم وجوہات کے سبب حکومت تشکیل سے گریز کررہی ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ اس صورتحال کیلئے بعض اعلیٰ عہدیدار ذمہ دار ہیں جو علحدہ شیعہ وقف بورڈ کی تشکیل سے متعلق عدالت میں مقدمہ کو بنیاد بناکر حکومت کو کسی کارروائی سے روک رہے ہیں۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ شیعہ وقف بورڈ کے سلسلہ میں ہائی کورٹ نے جو احکامات جاری کئے وہ بورڈ کی تشکیل میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ حکومت کو شیعہ تنظیم کی جانب سے دی گئی نمائندگی پر قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی عدالت نے ہدایت دی لیکن عہدیدار اس کا بہانہ بناکر بورڈ کی تشکیل میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ عہدیداروں نے بعض اہم فیصلوں کی تکمیل کیلئے یہ مہلت حاصل کرلی ہے اور گذشتہ ایک ماہ کے دوران بعض ایسے متنازعہ فیصلے کئے گئے جو وقف ایکٹ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ (سلسلہ صفحہ 6 پر)