ایم ایم سیز کے مقامات پر اراضیات کی قیمتوں میں اضافہ، میٹرو کے مقامات پر قیمتوں میں اُچھال
حیدرآباد 7 جون (سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں رئیل اسٹیٹ کاروبار کی حالت میں فوری طور پر کوئی سدھار نہیں دیکھا جارہا ہے۔ ماہرین کے بموجب تلنگانہ میں اراضیات کی تجارت کے لئے موزوں وقت ابھی ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ تشکیل ریاست کے ایک سال کی تکمیل کے بعد بھی رئیل اسٹیٹ کی حالت میں سدھار نہ آنے کی وجوہات کا ماہرین تجزیہ کررہے ہیں لیکن تاحال کوئی نتیجہ پر پہونچنے سے قاصر ہیں۔ سال 2005 ء تا 2008 ء کے درمیان حیدرآباد کے علاوہ نواحی علاقوں میں رئیل اسٹیٹ تجارت میں زبردست اُچھال دیکھا گیا تھا اور اطراف کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیاں جاری تھیں لیکن اس کے بعد سال 2009 ء سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور رئیل اسٹیٹ تجارت زوال کا شکار ہونے لگی۔ اسی طرح جائیدادوں کی قیمتوں میں کافی گراوٹ دیکھی جاتی رہی۔ 2014 ء میں ریاست آندھراپردیش کی تقسیم اور تلنگانہ کی تشکیل کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ دونوں ریاستوں کے صدر مقام کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں رئیل اسٹیٹ کی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوگا اور جائیدادوں کی قیمتیں توقع سے زائد بڑھ جائیں گی لیکن حیدرآباد اور اطراف و اکناف کے نواحی علاقوں میں ایسی کوئی صورتحال نہیں دیکھی جارہی ہے کیونکہ حیدرآباد میں زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ کے بجائے گراوٹ کے نمایاں اثرات نظر آرہے ہیں۔ تعمیراتی سرگرمیوں کے متعلق رئیل اسٹیٹ تاجرین کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصہ میں کئی علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیاں کچھ حد تک تیز ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں جس کی بنیادی وجہ تعمیری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث ہونے والا اضافہ تصور کیا جارہا ہے۔ ریاست کے دیگر مقامات پر بھی رئیل اسٹیٹ تجارت میں پائے جارہے اس انحطاط کے سبب اس مسئلہ کو قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مہنگائی کے باعث یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں جائیدادوں کی قیمتیں 3500 تا 4000 روپئے فی مربع فٹ تک پہونچ چکی تھی وہاں اب قیمتیں 2000 روپئے فی مربع فٹ تک انحطاط کا شکار ہوچکی ہیں۔ مادھاپور ، گچی باؤلی، میاں پور کے علاقوں میں 4 تا 5 ہزار روپئے مربع فٹ جگہ اب بھی دستیاب ہے۔ اسی طرح بنجارہ ہلز و جوبلی ہلز کے علاقوں میں بھی 8000 تا 9000 روپئے مربع فٹ جگہ فروخت کی جارہی ہے۔ اس صورتحال کے مزید چند برسوں تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ شہر میں میٹرو ریل کے آغاز کی صورت میں اِن علاقوں کے اعتبار سے قیمتوں میں کچھ بہتری پیدا ہوسکتی ہے لیکن اس کے متعلق بھی قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن علاقوں سے میٹرو گزرے گی اُن علاقوں میں قیمتوں میں بھاری اُچھال دیکھا جاسکے گا۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے علاوہ اطراف کے علاقوں میں موجود کھلی اراضیات پر تعمیراتی سرگرمیوں کے لئے فوری طور پر تجارتی ادارے و رئیل اسٹیٹ تاجرین دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں مگر جن علاقوں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ادارے قائم کررہی ہیں اُن علاقوں کی اراضیات کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔