تلنگانہ میں بس حادثہ

تلنگانہ میں بس حادثہ اس ملک کی تاریخ کا پہلا سنگین بس حادثہ ہے ۔ ریاستی آر ٹی سی بسوں کی کارکردگی پر سوال اُٹھ رہے ہیں ۔ حادثات آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ حادثہ انسانی المیہ سے کم نہیں ہے ۔ ایک بس میں سوار 88 مسافرین میں سے 57 افراد کی ہلاکت افسوسناک واقعہ ہے ۔ مہلوکین کے ورثا کے ساتھ انسانی ہمدردی کا اظہار کرنا ہر فرد کا فرض ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کے لیے یہ حادثہ بدشگون سمجھنے والوں نے بھی کہنا شروع کیا ہے کہ نگرانکار چیف منسٹر کے سی آر آئندہ چند ہفتوں میں دوبارہ اقتدار کے لیے انتخابات کا سامنا کرنے والے ہیں ۔ ان کی حکومت میں حادثہ کا شکار ان یاتریوں کی موت ایک ہولناک و غم ناک واقعہ سے کم نہیں ۔ اس حکومت پر عوام کی سلامتی کو یکسر نظر انداز کرنے کے الزامات بھی عائد ہوں گے ۔ اس حادثہ کی سنگینی اور مہلوکین کی تعداد پر اظہار افسوس کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں ۔ بس حادثات کو روکنے کے لیے ٹریفک کے اصول اپنائے گئے ہیں ۔ لیکن جس بس کو حادثہ ہوا وہ ایک تیڑھے میڑھے خطرناک راستے سے گذر رہی تھی اس پہاڑی علاقہ میں سفری انتظامات اور سڑک کے حفاظتی اصول درج نہیں کئے گئے ہیں تو یہ جان لیوا سفر ہر ایک موٹر راں کے نصیب کا حصہ ہوگا ۔ گذشتہ برسوں ضلع محبوب نگر میں ایک خانگی بس شعلہ پوش ہوگئی تھی جس میں 45 افراد زندہ جھلس کر فوت ہوئے تھے ۔ جگتیال بس ڈپو سے تعلق رکھنے والی اس بس کے حادثہ کی وجہ بس ڈرائیور کی کوتاہی یا بس بے قابو ہوجانے کا نتیجہ ہے ۔ تیز رفتاری سے ہونے والے حادثات کی روک تھام کے لیے ٹریفک قوانین اور اصول و ضوابط پائے جاتے ہیں لیکن جب سڑک پر دوڑنے والی موٹر گاڑی چلانے والے نے ان اصول و ضوابط کو نظر انداز کردیا تو انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالدیتا ہے ۔ بس ڈرائیور کو اس کی کارکردگی اور مہارت کے سلسلہ میں حال ہی میں بیسٹ ڈرائیور کا بھی ایوارڈ دیا گیا تھا ۔ اس نے اپنی ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کو فراموش کیا ہے تو اسے اس غلطی اور مسافرین کی اموات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔ بس مسافرین کی موت کی ایک وجہ بس میں گنجائش سے زیادہ مسافرین کو لے جانا بھی بتائی جارہی ہے ۔ ایک بس میں صرف 50 مسافرین کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اس بد نصیب بس میں 88 مسافرین سوار تھے اور حادثہ کے باعث مسافرین ایک دوسرے پر گر پڑے اور بیشتر مسافرین کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ۔ ملک میں بس حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ روڈ سیفٹی کے انتظامات کرنے والے اداروں کی لاپرواہی نے مسافرین کی قیمتی جانوں کو داؤ پر لگادیا ہے گذشتہ ماہ ہی مہاراشٹرا کے رائے گڑھ ضلع میں ایک بس کھائی میں گر گئی جس میں 34 مسافرین سوار تھے ۔ ان میں سے 33 مسافرین ہلاک ہوئے تھے ۔ تلنگانہ آر ٹی سی بسوں کے تعلق سے ماہرین نے کہا کہ یہ بسیں سڑکوں پر چلنے کی قابل نہیں ہیں اور ریاستی بس سرویس سے وابستہ ڈرائیورس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں بھی ماہرین نے منفی رائے ظاہر کی ہے تو حکومت اور متعلقہ عہدیداروں کو اس رائے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ جگتیال بس ڈپو کے حادثہ کی تصاویر دیکھ کر سارا ملک صدمہ سے دوچار ہوا ہے ۔ ہر کسی نے ریاستی وزیر ٹرانسپورٹ سے اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔ تلنگانہ کے محکمہ بس سرویس آر ٹی سی ڈپو کے تمام ذمہ داروں کے لیے ٹریننگ سیشن رکھنا ضروری ہے ۔ ٹی ایس آر ٹی سی میں عملہ کی تعداد کے بارے میں بھی اکثر شکایت سامنے آتی رہی ہے کہ یہاں عملہ کی کمی اور ناقص بسوں کی وجہ سے ڈرائیورس اور متعلقہ ذمہ داروں کو مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ بسوں کی دیکھ بھال کرنے والے مینٹیننس انجینئرس کی بھی کمی بسوں کے ناکارہ ہونے کی وجہ بتائی جارہی ہے ۔ حکومت نے حادثہ کے فوری بعد مہلوکین کے ورثا کو فی کس 5 لاکھ روپئے ایکس گریشیا دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اس ایکس گریشیا کی ادائیگی سے ہی حکومت کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی بلکہ یہ حادثہ اس کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اگر اس نے اپنے محکموں کی کارکردگی اور سرکاری ملازمین کے اندر فرض شناسی کی تربیت پر دھیان نہیں دیا تو حادثات اور اموات جیسے سانحات کو ٹالا نہیں جاسکے گا ۔ ٹی ایس آر ٹی سی کی بسوں کی بڑی تعداد کو ناکارہ بتایا گیا ہے ۔ اس کے باوجود ان بسوں کو چلایا جارہا ہے ۔ کئی بسوں میں ٹکنیکل مسائل پائے جاتے ہیں اور ان بسوں میں سے کئی بسوں کو سڑک پر چلنے کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود متعلقہ عہدیدار اور وزارت نے لاپرواہی سے کام لیا ہے تو ان کا مواخذہ ہونا چاہئے ۔۔