تلنگانہ ریاست کاقیام

آج2جون ہے۔ آج تلنگانہ ریاست وجود میںآگئی ہے۔چھ دہے طویل جدوجہدکے بعدسینکڑوںافرادکی قربانیوںکے نتیجہ میں یہ ریاست وجود میں آئی ہے ۔ ریاست کے ساڑھے چار کروڑعوام نے جوخواب دیکھا تھاوہ شرمندہ تعبیرہوگیا ہے ۔ ساری ریاست کے کروڑ ہا عوام نے علیحدہ ریاست کی جدوجہد میں اپنے اپنے طورپرکوئی نہ کوئی رول اداکیا ہے اور اب سبھی کی مشترکہ اورایک جدوجہدکے بعدہمیںکامیابی ملی ہے اور آج کاسورج ہندوستان کی29 ویںریاست تلنگانہ میںبھی طلوع ہوچکاہے ۔ چھ دہوںسے ہم مسائل اور نا انصافیوںکاشکار رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔زندگی کے ہر شعبہ میں علاقہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والوں کا نقصان ہوا ہے۔ شائد ہی کوئی ایسا شعبہ ہوگا جس میں علاقہ تلنگانہ اور علاقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کے ساتھ نا انصافی نہیں کی گئی ہو۔

انہیں نا انصافیوں کا نتیجہ ہے کہ ایک تحریک علاقہ کو علیحدہ ریاست کا درجہ دینے کیلئے شروع ہوئی اور یہ طویل اور بے تکان جدوجہد اور عوام کی خواہشات ہی کانتیجہ تھا کہ آج ہم ریاست تلنگانہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے خواب پورے ہوچکے ہیں۔ ایک دیرینہ جدوجہد اپنے منقطی انجام کو پہونچ چکی ہے اور ہم نے وہ کامیابی حاصل کرلی ہے جس کیلئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فرزندان تلنگانہ نے اپنی زندگیاں قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ آج کا سورج تلنگانہ ریاست میںطلوع ہوا ہے اور اب ریاست کی تشکیل کے بعد ایک جدوجہد جہاںختم ہوئی ہے وہیں دوسری جدوجہد شروع کرنے کا وقت بھی آگیا ہے ۔ یہ جدوجہد ریاست تلنگانہ کی بے مثال ترقی اور تلنگانہ کے تمام عوام کو ان کے خوابوں کی تعبیر دینے کی ہونی چاہئے ۔ جس طرح علیحدہ ریاست کے حصول کیلئے جدوجہد کی گئی تھی اسی طرح علیحدہ ریاست کی ترقی کیلئے جدوجہد کرنا اب تلنگانہ کے ہر باشندہ کی ذمہ داری ہے ۔ علیحدہ ریاست کی تحریک شروع کرنے والی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی حکومت بھی آج حلف لے گی اور اب یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تلنگانہ کے عوام کو وہ تمام راحتیں فراہم کرے جن سے آندھرائی حکمرانوں کے دور میں انہیں محروم کردیا گیا تھا ۔ عوام میں یہ احساس پیدا کرنا ضروری ہے کہ اب تلنگانہ میں ان سے انصاف ہوگا ۔

علیحدہ ریاست کی تشکیل میں سماج کے ہر طبقہ نے اپنا رول ادا کیاہے اور اپنی جانب سے جو کچھ ممکن ہو سکتا ہے وہ کیا ہے ۔ خاص طورپر تلنگانہ علاقہ میں رہنے بسنے والے مسلمانوں اور اقلیتوں نے بڑھ چڑھ کر تلنگانہ کی تشکیل میں اپنا حصہ ادا کیاہے ۔ اقلیتوں نے تلنگانہ جدوجہد میں ہر معاملہ میں برابری کا رول ادا کیا ہے اور ہر طرح کی قربانی بھی دی ہے ۔ اب جبکہ علیحدہ ریاست وجود میں آ چکی ہے اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی حکومت حلف لینے ہی والی ہے یہ ضروری ہے کہ تلنگانہ میں اقلیتوں کے ساتھ اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ پورا انصاف کیا جائے ۔ انہیں ان کے تمام جائز حقوق دئے جائیں اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کرتے ہوئے ترقی کے ثمرات میں انہیں ان کے حق سے محروم نہ کیا جائے ۔ سارے تلنگانہ میں مسلمانوںکی خاطر خواہ آبادی ہے اور ٹی آر ایس نے اقلیتوں کو تحفظات کی فراہمی کا جو وعدہ کیا ہے اس کو پورا کیا جانا چاہئے ۔ انہیں تحفظات کے ذریعہ ترقی کے عمل کا حصہ دار بنانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ علیحدہ ریاست کی جدوجہد میں جس طرح انہوں نے دوسروں کے برابر کا حصہ ادا کیا ہے اسی طرح ریاست کی ترقی کے عمل میںبھی انہیں برابر کا حصہ ادا کرنا چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ان کے ساتھ زندگی کے ہر معاملہ میں انصاف کیا جائے اور اب تک ان کے ساتھ نا انصافیوں کا جو طویل سلسلہ چل رہا تھا اس کو ختم کیا جائے ۔

ریاست تلنگانہ کے وجود میں آتے ہی اس کی ترقی کیلئے جدوجہدکی ضرورت ہے ۔ اس جدوجہد کو اسی وقت کامیاب کیا جاسکتا ہے جب اس میں تمام طبقات کی حصہ داری ہو ۔ اجتماعیت کا احساس پیدا کرتے ہوئے سماج کے ہر طبقہ کو جس طرح ریاست کے قیام کی جدوجہد کا حصہ بنایا گیا تھا اسی طرح ترقی کے عمل کابھی حصہ دار بنایا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوںکے ساتھ انصاف ضروری ہے اور اوقافی جائیدادوںکا تحفظ کرنے میں حکومت کو اپنی سنجیدگی کاثبوت دیناہوگا ۔اوقافی جائیدادوں کا تحفظ اگر ہوجائے تو پھر مسلمانوں کو کسی طرح کی امداد کی ضرورت نہیںہوگی ۔ جو سرکاری ادارے اور بڑی بڑی کمپنیاں اوقافی جائیدادوںپر قابض ہیں ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے ۔ جب تک حکومت سنجیدہ نہیںہوگی اس وقت تک ایسا کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ علیحدہ ریاست میں اس جدوجہد کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ تلنگانہ کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک کامیاب جدوجہد کی ہے اور تلنگانہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا ہے ۔