ہر طبقہ اعلی ترین عہدے حاصل کرنے کوشاں۔ اقلیتی قائدین باہمی اختلافات کی وجہ اہمیت حاصل کرنے سے محروم
حیدرآباد۔/25فبروری، ( سیاست نیوز) علحدہ تلنگانہ ریاست میں اہم عہدوں کے حصول کیلئے کانگریس کے تلنگانہ قائدین کی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور قائدین اپنے اپنے طبقات کو بنیاد بناکر اعلیٰ عہدوں کیلئے اپنی دعویداری پیش کررہے ہیں۔ تلنگانہ ریاست کے حصول کی جدوجہد میں اگرچہ مسلم اقلیت اور ان کے قائدین نے بھی برابر کا حصہ ادا کیا لیکن عہدوں کے حصول کے سلسلہ میں اقلیتوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آبادی کے اعتبار سے اقلیتوں سے کم فیصد والے طبقات بھی چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدوں کیلئے اپنی دعویداری پیش کررہے ہیں۔ تلنگانہ ہو کہ سیما آندھرا دونوں ریاستوں میں تشکیل حکومت کی صورت میں اہم عہدوں کیلئے ریڈی، کما، کاپو، مالا، مادیگا، بی سی اور اسی طرح کے دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین کانگریس ہائی کمان کے پاس طبقات کی بنیاد پر اپنی نمائندگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لیکن کسی قائد کو بھی اقلیتوں کو مناسب حصہ داری دیئے جانے کے بارے میں نمائندگی کرتے نہیں دیکھا گیا۔ تلنگانہ میں مسلم اقلیت کا فیصد تقریباً 16ہے لیکن نئی دہلی میں جاری اقتدار میں حصہ داری کی سرگرمیوں میں اقلیتیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ تحریک کے دوران تو ڈپٹی چیف منسٹر ، 12فیصد تحفظات، کے جی تا پی جی مفت تعلیم، سیاسی عہدوں میں مناسب نمائندگی جیسے وعدے کئے گئے لیکن کانگریس ہائی کمان ہو یا پھر ہائی کمان پر اثر انداز ہونے والے کانگریس قائدین کو صرف اپنی اپنی فکر اور اس کے لئے اپنے طبقات کی بنیاد پر نمائندگیوں میں مصروف ہیں۔ حیدرآباد میں مسلم اقلیت کا فیصد 36ہے جبکہ نظام آباد اور رنگاریڈی میں اقلیتوں کا فیصد 15ہے۔ نلگنڈہ میں 10، ورنگل اور کھمم میں 7 اور عادل آباد میں مسلمانوں کا فیصد 10بتایا جاتا ہے لیکن تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے جو قائدین نئی دہلی میں عہدوں کیلئے سرگرم ہیں ان میں ایسے طبقات زیادہ ہیں جن کی آبادی مسلم اقلیت سے بھی کم ہے۔ درج فہرست اقوام میں مالا، مادیگا اور دوسرے طبقات شامل ہیں لیکن عہدے کیلئے نمائندگی درج فہرست اقوام کی بنیاد پر نہیں بلکہ مالا اور مادیگا کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔
مالا طبقہ 6اور مادیگا 10فیصد ہے لیکن ان کے قائدین چیف منسٹر کے عہدہ کے دعویدار ہیں۔ اقلیتوں کو نظرانداز کرنے کی یہ صورتحال کوئی نئی نہیں سابق میں بھی اقلیتوں کو حکومتوں نے صرف وعدوں پر ہی بہلانے کی کوشش کی۔ کانگریس پارٹی میں جاری ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یقینی طور کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس میں موجود اقلیتی قائدین کا آپسی انتشار خود بھی اس کے لئے ذمہ دار ہے۔ کانگریس میں موجود اقلیتی قائدین عام طور پر ہائی کمان کے پاس ایک دوسرے کے خلاف نمائندگی کرتے دیکھے گئے اور آپسی اختلاف کا فائدہ ہمیشہ دیگر طبقات کے قائدین نے اٹھایا۔7فیصد ریڈی اور 4فیصد کما طبقہ نے حکومت پر ہمیشہ اپنا تسلط برقرار رکھا۔ اعلیٰ طبقات ہوں یا کمزور طبقات ان کے قائدین نے آپسی اختلافات کے باوجود جب اقتدار میں حصہ داری کا معاملہ آتا ہے تو وہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہوجاتے ہیں اور یہی کچھ نئی دہلی میں دیکھا جارہا ہے۔ ہر طبقہ کے قائدین علحدہ علحدہ گروپ کی شکل میں ہائی کمان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ ہائی کمان کے پاس اقلیتوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔ کانگریس کے اقلیتی طبقہ کے کارکنوں کا خیال ہے کہ قائدین کے آپسی اختلافات کے سبب ہی گذشتہ دس برسوں سے وہ اقتدار میں حصہ داری سے محروم رہے۔ کارکنوں کی رائے ہے کہ تلنگانہ ہو کہ سیما آندھرا دونوں علاقوں کے اقلیتی قائدین کو متحد ہوکر اقتدار میں حصہ داری کیلئے ہائی کمان سے نمائندگی کرنی چاہیئے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلہ میں پہل کس جانب سے ہوگی۔