ہم غریب الوطن ہیں کیا کرنا
مال و زر تو ہمارے پاس نہیں
تلنگانہ حکومت اور سی اے جی رپورٹ
تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت کی فائیلیں عام انتخابات سے قبل اگر کھل گئیں تو کیا ہوگا۔ تلنگانہ کے عوام ٹی آر ایس کو اس کی خسارہ والی حکمرانی کے عوض دوبارہ ووٹ دیں گے؟۔ یہ سوال اس وقت شدت سے اٹھ رہا ہے کیونکہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تلنگانہ کی حکومت نے سرکاری خزانہ کو غلط حساب سے پیش کیا ہے۔ حکومت نے اس سال 2016-17ء کے دوران صرف 1,386 کروڑ روپئے کا فاضل مالیہ تھا لیکن اس نے سرکاری خزانہ میں مالیہ کی موجودگی کو غیرمتوقع طور پر زیادہ بتایا۔ اپنے کھاتے میں فاضل مالیہ 6,778 کروڑ روپئے بتانے والی حکومت اب اس کی جھوٹی شان کے عوض ریاست کو ہونے والے 5,392 کروڑ روپئے کے مالیاتی خسارہ کی کس طرح پابجائی کرے گی یہ غیرواضح ہے۔ اب اگر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے خلاف کرپشن اور بدعنوانیوں کا مسئلہ اٹھایا جائے تو بقول سیاستدانوں کے ان کے خلاف سازش رچائی جانے کا الزام عائد کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ تلنگانہ کے خلاف سازش کرنے والوں نے ٹی آر ایس حکومت کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اس طرح ٹی آر ایس اپنے سادہ لوح ووٹروں سے ہمدردی کے ووٹ بٹورنے کا بہانہ تلاش کرے گی۔ کہا جاتا ہیکہ جن سیاستدانوں کو ووٹ لینے کا ہنر آتا ہے وہ اپنی لاکھ خرابیوں کے باوجود ووٹ لینے کی رفتار کو کم نہیں کرتے۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو عوام سے عیادت کے ووٹ لیں گے اور خدانخواستہ کوئی لیڈر مرجائے تو عوام سے تعزیت کے ووٹ حاصل کریں گے۔ گذشتہ 4 سال کی طویل حکمرانی کے دوران اس حکومت نے اپنے عوام کو سرکاری خزانہ سے متعلق تاریکی میں رکھا ہے تو یہ بڑی افسوسناک بات ہے۔ حیدرآباد کیلئے اپنے بجٹ میں صفر بجٹ رکھنے والی ٹی آر ایس حکومت سے اس بارے میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے سپوت اور وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹی راماراؤ کو بھی نشانہ پر لے لیا ہے۔ سی اے جی نے حیدرآباد میں شروع کئے جانے والے ٹی ۔ ہپ کے دوسرے مرحلہ کے پراجکٹ میں بدعنوانیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس پراجکٹ میں دھاندلیوں کی وجہ سے ریاستی خزانہ پر 16.7 کروڑ روپئے کے اضافی مصارف آئیں گے۔ یہ ٹی ۔ ہب دراصل کے ٹی راماراؤ کی ذہنی اختراع ہے۔ سی اے جی نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ریتی کی فروخت میں 18 کروڑ روپئے کی مبینہ بدعنوانیاں کی گئی ہیں اور ریت کی فروخت کا معاملہ بھی وزارت معدنیات کے تحت آتا ہے جس کا قلمدان خود کے ٹی آر رکھتے ہیں۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ اسمبلی و گورنر کو پیش کردی گئی لیکن اب تک اس مالیاتی خسارہ پر حکومت نے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ انتخابات کے قریب آنے کے دوران حکومت کے پاس اپنی کارکردگی کا ثبوت پیش کرنے اور سرکاری خزانہ کو طاقتور بنانے جیسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ پوری ریاست میں مالیہ کی کمی ہے۔ حکومت کا خزانہ خالی ہے تو بینکوں کے اے ٹی ایمس بھی نوٹوں سے خالی ہیں۔ تلنگانہ کے عوام کیلئے یہ ایک ایسا تکلیف دہ دور ہے جہاں وہ بینکوں میں اپنے ہی جمع کردہ پیسے نکالنے سے قاصر ہیں۔ اگر حکومت کے خلاف عوام کے اندر منفی احساس پیدا ہوتا ہے تو یہ ٹی آر ایس کے خلاف ایک بڑی خبر ہوگی۔ جب عوام اپنے طور پر فیصلہ کرلیتے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ سیاسی مافیا کی رگوں سے زہر نکالنے کا وقت عام انتخابات ہی ہوتے ہیں۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے سرکاری خزانہ کے خالی ہونے کی رپورٹ پیش کرکے یہ تو واضح کردیا ہے کہ سرکاری اسکیمات پر عمل آوری میں تاخیر کیوں ہورہی ہے۔ ڈبل بیڈروم کے مکانات کے وعدے ہنوز وعدوں میں ہی اٹکے ہوئے کیوں ہیں۔ قرضوں پر جب حکومت 7.40 فیصد سب سے زیادہ شرح سود ادا کرے گی اور پی ڈی (پرسنل ڈپازٹ) اکاؤنٹس میں کثیر رقم رکھنے سے یہی ظاہر ہوگا کہ ریاستی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے اور مالیاتی انتظامی صلاحیتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس طرح سرکاری مصارف میں بے قاعدگیاں پیدا ہوں گی اور مالیہ خسارہ کی ابتری تک پہنچ چکا ہوگا۔ ریاست کی ترقی و خوشحالی کا سفر رک جائے گا یا اس میں تیزی نہیں رہے گی۔
سی بی ایس ای پرچہ جات کا افشاء
مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل نے ملک بھر کے تقریباً 25 لاکھ سی بی ایس ای طلباء کے مستقبل کو تاریک بنانے والے واقعہ پرچہ جات کے افشاء کیس سے نمٹنے میں اپنی نااہلیت کا ثبوت دے تو پھر تعلیمی شعبہ کے لئے اس بڑی بدبختی کی بات کیا ہوگی۔ مودی حکومت نے بلند دعوؤں کے باوجود کئی شعبوں میں دھاندلیوں کو نظرانداز کردیا ہے۔ سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن کو اپنے اعتبار و بھروسہ کو پہنچنے والے دھکہ سے ابھرنے کیلئے بہت سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سی بی ایس ای پرچہ جات کا افشاء معاملہ سنگین ہے۔ 12 ویں اور 10 ویں جماعت کے طلباء کیلئے یہ فطری مایوسی کا باعث بننے والا واقعہ سختی سے نمٹنے کا متقاضی ہے۔ موجودہ نظام کے تحت پروٹوکول میں جس طرح کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں اس کے نتیجہ میں پرچہ جات افشاء ہوئے ہیں۔ بورڈ امتحانات ہر طالب علم کی اپنے تعلیمی زندگی کا اہم موڑ ہوتا ہے۔ چند ایک خودغرض امتحان مافیا، طلباء اور سرپرستوں کی خرابیوں کا خمیازہ تمام طلباء کو بھگتنے کی ضرورت پڑے تو یہ تعلیمی نظام پر بدنما داغ ہے۔ لہٰذا حکومت کو خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سی بی ایس ای کے پرچہ جات کا افشاء اب تعلیمی حلقوں میں ایک شدید بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ بورڈ امتحان کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بھی طلباء کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے تو یہ سراسر سنگین مجرمانہ حرکت ہے، جس میں ملوث افراد کو ہرگز بخشا نہیں جانا چاہئے۔ بورڈ امتحان میں حصہ لینے والے طلباء اس منزل پر پہنچ کر اپنی اعلیٰ تعلیم کے لئے چھلانگ لگانے کی تیاری کرتے ہیں لیکن سی بی ایس ای کے ذمہ داروں نے پرچہ جات کے افشاء کو روکنے کی ایماندارانہ طور پر چوکسی اختیار نہیں کی تو اس کوتاہی سے لاکھوں بچوں کو بھاری قیمت چکانے پڑے گی۔ لہٰذا حکومت اور بورڈ کو درمیانی راستہ نکال کر افشاء شدہ پرچوں کے لئے دوبارہ امتحان منعقد کرنے کے فیصلہ پر ازسرنو غور کرتے ہوئے طلباء کی مایوسی کو دور کرنے کا متبادل حل تلاش کرنا ہوگا۔