کے سی آر کی پارٹی قائدین سے مشاورت،کانگریس سے سخت مقابلہ کے پیش نظر اسمبلی چناؤ مقررہ وقت پر کرانے کا فیصلہ
حیدرآباد ۔ 4 ۔جون (سیاست نیوز) ملک میں وسط مدتی انتخابات کی اطلاعات نے تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکومتوں کو الجھن میں مبتلا کردیا ہے ۔ کرناٹک میں تشکیل حکومت میں ناکامی اور بڑھتی مہنگائی کے سبب عوامی ناراضگی سے بچنے کیلئے بی جے پی لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی کی قومی قیادت نے این ڈی اے میں شامل حلیف جماعتوں سے اس بارے میں مشاورت کا آغاز کیا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے مختلف اداروں سے سروے کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ ایسے میں تلنگانہ اور آندھراپردیش کی سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے۔ برسراقتدار ٹی آر ایس اور آندھراپردیش میں برسر اقتدار تلگو دیشم وسط مدتی انتخابات کا سامنا کرنے تیار نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اس مسئلہ پر ایک سے زائد مرتبہ پارٹی قائدین سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے آئندہ سال مئی کے بجائے 6 ماہ قبل انتخابات کی صورت میں پارٹی کی کامیابی کے امکانات کے سلسلہ میں انٹلیجنس اور دیگر اداروں سے رپورٹ حاصل کی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق سروے رپورٹ میں حکومت کی مختلف نئی اسکیمات کے باوجود ٹی آر ایس کے حق میں عوام میں غیر معمولی جوش و خروش کی کمی دیکھی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی آر ایس وسط مدتی انتخابات کے حق میں نہیں ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر عام انتخابات سے قبل بعض نئی اسکیمات کے آ غاز کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اگر نومبر میں لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات ہوتے ہیں تو ٹی آر ایس لوک سبھا اور اسمبلی دونوں کیلئے علحدہ انتخابی منشور تیار کرے گی۔ پارٹی ذرائع کے مطابق کانگریس سے سخت مقابلہ کے امکانات کو دیکھتے ہوئے کے سی آر نے وسط مدتی انتخابات کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر برسر اقتدار پارٹیوں کو وسط مدتی چناؤ مہنگے پڑتے ہیں۔ عوامی تائید سے متعلق زائد خود اعتمادی بسا اوقات نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو کانگریس کے علاوہ بی جے پی تلگو دیشم اور کودنڈا رام کی تلنگانہ جنا سمیتی سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ ٹی آر ایس سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی میں وسط مدتی انتخابات کی اطلاعات نے ہلچل پیدا کردی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ دوبارہ عوام سے رجوع ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ بعض ارکان ایسے ہیں جنہیں پارلیمنٹ کیلئے مقابلہ میں دلچسپی نہیں اور وہ اسمبلی کیلئے منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کو اس بات کی فکر ہے کہ اگر اسمبلی اور لوک سبھا کے انتخابات ایک ساتھ منعقد ہوں تو ان کی امیدواری خطرہ میں پڑ سکتی ہے ۔ یہ وہ ارکان ہیں جنہیں کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں ٹکٹ سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف آندھراپردیش میں تلگو دیشم پارٹی کو وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے سخت مقابلہ درپیش ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو متحدہ آندھراپردیش کے اس تجربہ کو دہرانے تیار نہیں جس میں انہوں نے تروپتی میں قاتلانہ حملہ کے بعد ہمدردی کی لہر کی امید میں اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کرائے تھے لیکن انہیں شکست کا سامنا ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو مقررہ وقت پر اسمبلی انتخابات کے حق میں ہیں ۔ تلگو دیشم قائدین اور ارکان اسمبلی نے بھی قیادت سے اسی طرح کی رائے ظاہر کی ہے۔ اگر مرکزی حکومت یا الیکشن کمیشن لوک سبھا کے ساتھ اسمبلیوں کے انتخابات کے بارے میں رائے حاصل کرتا ہے تو تب بھی دونوں برسر اقتدار پارٹیاں اسمبلی کے چناؤ مقررہ وقت سے قبل کرائے جانے کی مخالفت کریں گے۔