مفتی محمد قاسم تسخیر صدیقی
’’تقویٰ‘‘ مؤمن کے دل میں چھپی ایک باطنی کیفیت کا نام ہے، جس کی روشنی سے قلب و دماغ روشن و منور ہوتے ہیں، نافرمانی اور نفسانی خواہشات کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں اور یہ تقویٰ کی کیفیت نہ صرف قلب و روح کو پاکیزہ بناتی ہیں، بلکہ اللہ تعالی کے قرب خاص کا اہل بناتی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر تقویٰ اور خوف الہی پیدا کرنے کی تلقین کی ہے اور ایساس محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں اپنے بندوں سے صرف اور صرف تقویٰ کا مطالبہ کرتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا لفظ ہے، جس میں ہر قسم کی بھلائی اور نفع شامل ہے اور اس کی پناہ میں آنے سے بندہ ہر شر اور برائی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ نہ صرف اس دنیا میں، بلکہ آخرت میں نجات اور بلند درجات کا مدار تقویٰ ہے۔ تقویٰ ایسا لفظ ہے، جو قلبی کیفیت اور بدنی عبادت و اطاعت دونوں پر مشتمل ہے۔ قلبی کیفیت سے نہ صرف خوف و خشیت مراد ہے، بلکہ نقشبندیہ کے نزدیک حقیقی تقویٰ کی تفسیر ’’دوام حضور و آگاہی‘‘ سے کی گئی ہے، یعنی بندہ دنیا ومافیھا سے کنارہ کش ہوکر یاد الہی اور ذکر الہی میں ایسا منہمک و مستغرق ہو جائے کہ کوئی لمحہ یاد الہی سے غافل نہ ہو اور ’’دست بہ کار اور دل بہ یار‘‘ کی منزل پر پہنچ جائے کہ بظاہر دنیوی امور کو انجام دے، کاروبار و تجارت کرے، گھریلو ذمہ داریوں اور فرائض کو نبھائے، لیکن دل ہر لمحہ، ہر آن، ہر گھڑی اللہ تعالی کی طرف متوجہ و منعطف رہے۔
تقویٰ خالق و مخلوق دونوں سے متعلق اپنے حقوق و فرائض کو سمجھنے اور حسن و خوبی کے ساتھ اس کو سر انجام دینے کا نام ہے۔ اللہ تعالی کے حقوق کی کامل مراعات کے ساتھ بندوں کے حسب درجات ان کے حقوق و واجبات کو بہترین سلیقہ سے نبھانے کا نام ہے۔ تقویٰ کے فوائد اور نتائج صرف آخرت میں ظاہر نہیں ہوں گے، بلکہ وہ ایسا جوہر ہے جو شخص اس کو اختیار کرتا ہے، اس کے اثرات اور ثمرات کو اسی دنیا میں محسوس کرتا ہے اور تقویٰ کی برکت سے وہ دنیا ہی میں جنت جیسی زندگی کو پالیتا ہے، جو رنج و غم سے دور ہو اور قلبی سکون و اطمینان کی حامل ہوتی ہے۔
تقویٰ کا سب سے اہم اور مبارک فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالی کی خصوصی معیت نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد الہی ہے ’’یقیناً اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے، جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں‘‘ (سورۃ النحل۔۱۲۸) ’’اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالی متقین (تقویٰ والوں) کے ساتھ ہے‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۴۹)
جب کسی بندہ کو اللہ تعالی کی خصوصی معیت اور قربت خاص سرفراز ہوتی ہے تو وہ کس قدر مشکل اور کٹھن صورت حال میں کیوں نہ ہو، اس کا قلب مطمئن اور پرسکون ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی جب ساتھ ہے تو وہی کارساز ہے۔
مشکلات، مصائب اور پریشانیاں انسانی زندگی کے لازمی جز ہیں، ان کے بغیر انسانی زندگی کا کوئی تصور نہیں، لیکن جو بندہ تقویٰ کا نور اپنے دل میں پیدا کرلیتا ہے تو اللہ تعالی اس نور کی وجہ سے بندہ کے ہر مشکل سے مشکل کام کو آسان سے آسان کردیتا ہے۔ ارشاد الہی ہے: ’’اور جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے معاملے میں آسانی پیدا فرمادیتا ہے‘‘۔ (سورۃ الطلاق۔۴)
ہر شخص رزق کی فراہمی اور کشائش کے لئے سرگرداں و پریشان ہے، دن رات محنت بھی کرتا ہے اور دعاء بھی کرتا ہے اور مختلف تکالیف اور مشقتوں کا بھی سامنا کرتا ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج مسلمان مال و دولت کے حصول کے لئے حلال و حرام کی تمیز کو کھو چکا ہے اور جس طریقے سے بھی مال جمع ہو جائے اس کو حاصل کرنے کی فکر میں ہے۔ لیکن جب بندہ ذرائع آمدنی کے لئے تقویٰ کو پیش نظر رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس پر آسمانوں اور زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے اور غیب سے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جہاں سے اس کو کبھی وہم و گمان نہ تھا، وہاں سے رزق فراہم ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے ’’اور جو تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے لئے (رنج و غم سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے، جہاں اس کو گمان بھی نہ تھا‘‘ (سورۃ الطلاق۔۲،۳) ’’اور اگر بستی والے ایمان لالیتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کو کھول دیتے‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۹۶)
تقویٰ ایسی قوت ہے، جس سے انسان اپنے دشمن کے مکر و فریب اور اس کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کو دشمن کی تدابیر کو بے اثر کرنے کے لئے زیادہ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی، غیبی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے اور نہ صرف وہ اپنے دشمن کے مکر سے بچ جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالی کی غیبی مدد سے اس پر غالب ہو جاتا ہے۔ ارشاد الہی ہے ’’اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو تم کو ان کا مکر کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘ (سورہ آل عمران۔۱۲۰) ’’ہاں! اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ پر قائم رہو اور وہ (دشمن) تم پر حملہ آور ہو تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد فرمائے گا‘‘ (سورہ آل عمران۔۱۲۵) ’’اور اللہ تعالی ایسے لوگوں کو جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے ان کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا، نہ انھیں کوئی برائی پہنچے گی اور نہ غمگین ہوں گے‘‘۔ (سورۃ الزمر۔۶۱)
شیطان، انسان کا سب سے بڑا اور کھلا دشمن ہے، وہ نہایت طاقتور ہے، اس سے مقابلہ کرنا اور اس کے مکر اور دھوکہ سے واقف ہونا آسان نہیں، لیکن جو بندے تقویٰ کا جوہر حاصل کرلیتے ہیں ان کے لئے شیطان سے مقابلہ آسان ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’بے شک جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے تو وہ (اس وقت) یاد کرلیتے ہیں اور ان کی (بصیرت کی) انکھیں کھل جاتی ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۲۰۱)
توبہ سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور تقویٰ سے نہ صرف گناہ معاف ہوتے ہیں، بلکہ اس کا عمل بھی درست ہو جاتا ہے۔ ارشاد الہی ہے ’’اے ایمان والو! تم اللہ تعالی سے ڈرو اور سیدھی بات کہو، اللہ تعالی تمہارے لئے تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا‘‘۔ (سورۃ السبا۔۷۱)
تقویٰ کی وجہ سے انسان کو اللہ تعالی کی جانب سے ایک غیبی قوت عطا ہوتی ہے، جس کے نور سے وہ حق و باطل میں فرق کرنے لگتا ہے، اچھائی اور برائی میں تمیز کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے اور نازک و پیچیدہ صورت حال میں اصابت رائے کو پاتا ہے اور یہ خوبی انسان کو اس کی عملی زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی و کامرانی عطا کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کروگے تو وہ تمہارے لئے (حق و باطل میں) فرق کرنے والی (قوت و حجت) عطا کرے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑا فضل والا ہے‘‘۔ (سورۃ الانفال۔۲۹)
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اہل تقویٰ کا دوست بن جاتا ہے، کیونکہ جو اپنے دل کو دنیا، نفس اور شیطان سے بچاکر اللہ تعالی کی نافرمانیوں سے حفاظت کرتا ہے اور اطاعت و فرماں برداری اور یاد الہی سے دل کو روشن و منور کرتا ہے تو اللہ تعالی اس خوش نصیب کو دنیا و آخرت کے امتیان میں تنہا بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا، بلکہ وہ اس کا دوست بن کر اس کا حامی اور مددگار بن جاتا ہے۔ ارشاد الہی ہے ’’اس کے دوست صرف اور صرف متقین ہیں‘‘۔ (سورۃ الانفال۔۳۴)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے اور آخرت کی کامیابی اور ترقی کا دارومدار خاتمہ بالخیر پر موقوف ہے اور جو بندہ تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا انجام اور خاتمہ بالخیر ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اچھا انجام تو بس تقویٰ کی بنا پر ہے‘‘ (سورہ طہ۔۱۳۲) ’’اور اچھا انجام صرف متقین کے لئے ہے‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۲۸)
جو نیک اعمال انسان کرتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول ہوں، بہت سی کوتاہیاں ہماری عبادت اور اطاعت میں ہو جاتی ہیں اور جب بندہ تقویٰ اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالی اس کی نیکیوں کو قبول فرما لیتا ہے اور جو کوتاہیاں اس میں رہ گئی ہیں، اس کو درگزر فرما دیتا ہے۔ ارشاد الہی ہے ’’بلاشبہ اللہ تعالی تقویٰ اختیار کرنے والوں سے قبول فرماتا ہے‘‘ (سورۃ المائدہ۔۲۷) جنت جیسی اعلی نعمت متقین کے لئے تیار کی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے ’’وہ (جنت) متقین کے لئے بنائی گئی ہے‘‘۔ (آل عمران۔۱۳۳)
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ تعالی نے اعلان کیا ہے کہ ’’جنت کی اعلی نعمتیں، بہتی نہریں، حور و غلمان، میوہ جات اور باغات سب متقین کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالی سے عاجزانہ دعاء ہے کہ وہ ہم کو اپنے فضل و کرم سے تقویٰ کی دولت سے سرفراز فرمائے اور دین و دنیا میں اس کے فوائد و ثمرات سے بہرہ مند فرمائے۔ (آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسٓ)