تقسیم ریاست کے بعد سیاسی جماعتیں حکمت عملی کی تیاری میں مصروف

متبدلہ صورتحال میں ہر جماعت عوام کو رجھانے کی منصوبہ سازیوں میں مصروف : کانگریس کو ٹی آر ایس کے انضمام کی امید

حیدرآباد 2 مارچ ( پی ٹی آئی ) آندھرا پردیش کی تقسیم اب جبکہ حقیقت بن گئی ہے ریاست میں سیاسی جماعتیں لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اپنی حکمت عملیوں میں حالات کے مطابق تبدیلیاں کر رہی ہیں۔ آندھرا پردیش میں صدر راج نافذ کردیا گیا ہے کیونکہ چیف منسٹر کی حیثیت سے کرن کمار ریڈی نے اپنے عہدہ اور کانگریس پارٹی کی رکنیت سے استعفی پیش کردیا ہے اور کانگریس کے کئی ارکان اسمبلی بھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔ تلنگانہ کی تشکیل کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کرتے ہوئے برسر اقتدار کانگریس پارٹی علاقہ میں کو امید ہے کہ علاقہ میں اسے شاندار کامیابی مل سکتی ہے ۔ اس علاقہ میں لوک سبھا کی 17 اور اسمبلی کی 119 نشستیں ہیں۔ کانگریس کے ارکان اسمبلی ‘ ارکان پارلیمنٹ اور سابقہ کرن کمار ریڈی حکومت کے تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے وزرا علاقہ میں کامیابی کی ریلیاں منعقد کر رہے ہیں اور وہ تلنگانہ بل کی پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے سونیا گاندھی سے اظہار تشکر کر رہے ہیں۔ کانگریس کو امید ہے کہ علاقہ میں طاقتور موقف رکھنے والی ٹی آر ایس ‘ کانگریس میںضم ہوجائیگی ۔ تاہم دونوں جماعتوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ ٹی آر ایس کا الزام ہے کہ کانگریس ان کی پارٹی کے کچھ قائدین کو لالچ دے کر اپنی صفوں میں شامل کر رہی ہے ۔ کانگریس میں ٹی آر ایس کے انضمام کا مسئلہ امکان ہے کہ جاریہ ہفتے حل ہوجائیگا جبکہ کل ٹی آر ایس کا ایک اہم اجلاس ہونے والا ہے ۔ یا ٹی آر ایس کانگریس میں ضم ہوجائیگی یا پھر امکان ہے کہ دونوں میں اتحاد ہوگا ۔ کانگریس کو دونوں ہی صورتوں میں فائدہ ہونے کی امید ہے ۔ تقسیم ریاست کیلئے تنقیدوں کا سامنا کرنے والی کانگریس کو تاہم سیما آندھرا علاقہ میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔

علاقہ میں لوکس بھا کی 25 اور اسمبلی کی 175 نشستیں ہیں۔ علاقہ میں کانگریس قائدین آندھرا کیلئے ملنے والے پیاکج کی تشہیر کا سہارا لے رہے ہیں۔ ٹی آر ایس قائدین امکان ہے کہ علاقہ میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے کیونکہ یہی جماعت ہے جسن ے علیحدہ تلنگانہ کے نعرہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اصل اپوزیشن تلگودیشم پارٹی سیما آندھرا میں پرجوش نظر آتی ہے اور یہاں اسے فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ پارٹی صدر چندرا بابو نائیڈو ترقی پسند اور طاقتور لیڈر سمجھے جاتے ہیں۔ سابقہ حکومت کے سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے کئی وزرا اور ارکان اسمبلی ‘ جو تقسیم ریاست کے مخالف تھے ‘ تلگودیشم میں شامل ہو رہے ہیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کیلئے صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے کیونکہ ٹی آر ایس اور کانگریس یہاں پسندیدہ جماعتیں نظر آتی ہیں اور انہیں دونوں نے علیحدہ ریاست کی تشکیل کا دعوی کیا ہے ۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کو جھٹکا لگا ہے

اور اس کے کچھ ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں۔ وائی ایس آر کانگریس امکان ہے کہ سیما آندھرا میں اچھا مظاہرہ کریگی کیونکہ اس کے لیڈر جگن موہن ریڈی مقبول لیڈر ہیں اور ان کے والد وائی ایس راج شیکھر ریڈی کیلئے عوام میں ہنوز ہمدردی پائی جاتی ہے ۔ اس پارٹی کو تاہم تلنگانہ میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ اس نے ریاست کی تقسیم کی انتہائی شدت سے مخالفت کی تھی ۔ بی جے پی کو بھی امید ہے کہ تلنگانہ کی تائید کے عوض اسے بھی علاقہ میں عوامی تائید حاصل ہوگی ۔ سی پی آئی بھی علیحدہ تلنگانہ کی حامی رہی ہے اور اسے بھی امید ہے کہ علاقہ میں اسے کچھ حد تک فائدہ ضرور ہوگا ۔ سی پی آئی تاہم انتخابات کیلئے کسی اور جماعت سے اتحاد بھی کرسکتی ہے ۔