ہائیکورٹ میں تلنگانہ حکومت کی سرزنش، فیصلوں پر نظرثانی کی ہدایت
حیدرآباد۔/23ستمبر، ( سیاست نیوز) ہائی کورٹ نے تلنگانہ حکومت کے دو فیصلوں کے سلسلہ میں اس کی سرزنش کی ہے جس کے بعد طلبہ کو فیس بازادائیگی سے متعلق اسکیم اور تلنگانہ میں گاڑیوں کے دوبارہ رجسٹریشن کرانے سے متعلق احکامات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ چیف جسٹس کلیان جوتی سین گپتا اور جسٹس پی وی سنجے کمار پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ طلبہ کی فیس بازادائیگی سے متعلق نئی اسکیم FAST پر عمل آوری کیلئے رہنمایانہ خطوط کو قطعیت نہ دے، ساتھ ہی ہائی کورٹ نے تلنگانہ میں موجودہ تمام گاڑیوں کے دوبارہ رجسٹریشن سے متعلق احکامات پر حکم التواء جاری کردیا۔ واضح رہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے30جولائی کو کانگریس دور حکومت میں شروع کردہ فیس باز ادائیگی اسکیم ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ معاشی طور پر پسماندہ طلبہ کیلئے نئی اسکیم FASTکو متعارف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اسکیم سے استفادہ کیلئے جو شرائط طئے کئے گئے اس کے مطابق طلبہ کے آباء و اجداد کا یکم نومبر 1956سے تلنگانہ میں قیام کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت نے تلنگانہ میں موجود تمام گاڑیوں کا دوبارہ رجسٹریشن کرتے ہوئے نمبر پلیٹ پر اے پی کی جگہ ٹی ایس درج کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ڈیویژن بنچ نے طلبہ کو تعلیمی امداد سے متعلق جی او 36مورخہ 30جولائی 2014کے خلاف دائر کردہ اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اسکیم پر عمل آوری سے قبل رہنمایانہ خطوط کی تفصیلات عدالت میں پیش کرے۔ تلگودیشم رکن اسمبلی پی ستیہ نارائنا اور سابق وزیر ڈی مانکیہ ورا پرساد نے اس جی او کے خلاف عدالت میں درخواست پیش کی تھی۔ جی او میں وضاحت کی گئی کہ وہی طلبہ اس اسکیم سے استفادہ کے مستحق ہوں گے جن کے اجداد یکم نومبر 1956یا اس سے قبل سے تلنگانہ میں مقیم ہوں انہی طلبہ کی کالج فیس حکومت ادا کرے گی۔ تعلیمی سال 2014-15 میں پوسٹ میٹرک کورسیس کیلئے داخلہ لینے والے یا ان کورسیس میں تعلیم جاری رکھنے والے طلبہ اس اسکیم سے استفادہ کے اہل ہیں۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے صرف تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اس اسکیم سے استفادہ کے فیصلہ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے یکم نومبر 1956کی شرط مقرر کرنے اور اس کے پس پردہ محرکات کے بارے میں بھی وضاحت طلب کی۔ ایڈوکیٹ جنرل کے رام کرشنا ریڈی نے عدالت کو بتایا کہ یہ جی او صرف رہنمایانہ خطوط طئے کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے اور ابھی تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ایڈوکیٹ جنرل نے حکومت کے اس اقدام کی مدافعت میں حکومت کے کمزور معاشی موقف کا حوالہ دیا۔ ایڈوکیٹ جنرل کے اس استدلال سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی اور چیف جسٹس نے ریمارک کیا کہ ’’ اگر حکومت کو معاشی دشواری ہے تو وہ اسکیم کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن اسے اس طرح کی تحدیدات عائدکرنے کا اختیار نہیں جو غیر دستوری ہوں۔‘‘ (سلسلہ صفحہ6پر)