سائنسی سماجی ذمہ داری کے تعارف پر زور، تخریب و انتشار پر مبنی ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے کا مشورہ، وزیراعظم مودی کا خطاب
تروپتی 3 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی نے تعلیمی اداروں کے بشمول تمام متعلقہ اداروں میں سائنسی مہارت کے فروغ کے لئے تمام سرکردہ سائنسی اداروں میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے خطوط پر سائنسی سماجی ذمہ داری متعارف کرنے کی آج پرزور وکالت کی۔ وزیراعظم مودی نے تروپتی میں منعقدہ انڈین سائنس کانگریس کے 104 ویں سیشن سے افتتاحی خطاب کے دوران سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ بڑھتی ہوئی انتشار پسند و تخریب کار ٹیکنالوجی پر نظر رکھیں اور ملک کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے مضر ٹیکنالوجی پر قابو پائیں۔ انھوں نے نئی ایجاد دریافت پر مرکوز مختلف سائنسی شعبوں کی بھرپور مدد کے لئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ ’’کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے خطوط پر اسکولوں اور کالجوں کے بشمول تمام سرکردہ سائنسی اداروں میں سائنسی سماجی ذمہ داری کا نظام متعارف کیا جائے۔ ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جہاں نظریات اور وسائل کا تبادلہ ہوتا ہے‘‘۔ انھوں نے کہاکہ ہندوستان کے ہر کونے میں سائنسی مہارت کے مواقع فراہم کرنا انتہائی بہترین و تابناک قدم ہوگا۔ انھوں نے کہاکہ ’’اس مقصد کے لئے تمام اسکولوں اور کالجوں سے قومی لیباریٹریوں کو مربوط کیا جانا چاہئے‘‘۔
ہمارے سائنسدانوں نے بنیادی ریسرچ کے معیار میں اضافہ کرتے ہوئے اسے سماج سے جوڑا ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں سائنٹفک ذمہ داری کے نظریہ کو پیداکرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام شراکت داروں کے سرکردہ اداروں تک رسائی حاصل کی جاسکے ۔انہوں نے تحقیق کو بین الاقوامی معیارکے خطوط پر مستحکم کرنے کی ضرورت پر بھی زوردیا۔انہوں نے کہا کہ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے خطوط پر ،سائنٹفک سماجی ذمہ داری کے نظریہ کی توثیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسکولس ، کالجس سمیت دیگر تمام حصہ داروں تک رسائی حاصل کی جاسکے ۔ہمارے سائنس و ٹکنالوجی کے بہترین اداروں کو چاہئے کہ بنیادی تحقیق کو سرکردہ عالمی معیارات کے خطوط پر مستحکم کریں۔ بنیادی معلومات کی اختراعات میں تبدیلی،اسٹارٹس اپس اور انڈسٹری سے ہمیں جامع اور دیرپاترقی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ سائنس کو عوام کی بڑھتی خواہشات کی تکمیل کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی جزیرہ نما میں 1300 جزائر ہیں جو ہمیں طویل ساحلی پٹی فراہم کرتے ہیں۔
یہ 2.4 بلین مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے جو ہمیں ایک بڑی اقتصادی زون فراہم کرتے ہیں ۔ انہو ں نے کہا کہ مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں ٹکنالوجیز کے استعمال کی ضرورت ہے ۔ زراعت ‘ پانی ‘ توانائی ‘ ٹریفک مینجمنٹ ‘ ماحولیات ‘ انفرا اسٹرکچر ‘ جیو انفارمیشن سسٹم اور سیکوریٹی کے شعبہ میں ہمیں توجہ دینی کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں ٹکنالوجیز کا استعمال بھی بہتر ثابت ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ انفرااسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں آج سرمایہ کاری کے فائدے کل حاصل ہوں گے ۔حکومت سائنٹفک معلومات میں تعاون کر رہی ہے چاہے وہ بنیادی سائنس ہو یا پھر اپلائیڈسائنس۔یہ تعاون اختراعات کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صاف پینے کے پانی، توانائی، غذا، ماحولیات، صحت کے شعبوں میں کئی چیالنجس ہیں۔ہمیں مسابقت کے لئے ٹکنالوجی کے مواقع سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔نینی آیوگ نے ملک میں ہولسٹک سائنس ٹکنالوجی ریجن کی تیاری کی ہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم تحقیق اور تربیت کے ذریعہ ڈیجیٹل مینوفکچرنک ، ڈاٹا انالائسس اورمعلومات کا حصول کرسکتے ہیں ۔اس کے لئے مواصلات بھی اہمیت کی حامل رہی ہے ۔
اس کانگریس میں امریکہ، جاپان، اسرائیل، فرانس اور بنگلہ دیش سے 6 نوبل اِنعام یافتگان شریک ہوئے ۔ان کے علاوہ ملک بھر سے 14 ہزار سائنسداں اور اسکالرس بھی اس کانگریس میں حصہ لے رہے ہیں جو پانچ دنوں تک جاری رہے گی۔ ”قومی ترقی کے لئے سائنس و ٹکنالوجی” اس کانگریس کا موضوع دیا گیا ہے ۔اس موقع پر وزیراعظم نے نوبل اِنعام یافتگان کو گولڈ میڈلس کے ذریعہ تہنیت بھی پیش کی۔ انڈین سائنس کانگریس کے پلینری سیشن کے علاوہ خواتین کی سائنس کانگریس، بچوں کی سائنس کانگریس کا بھی اہتمام گیا ہے ۔وزیراعظم کے دورہ اور سائنس کانگریس کے پیش نظر تروپتی اور تروملا میں سخت ترین سکیوریٹی انتظامات کئے گئے تھے ۔ تروپتی دوسری مرتبہ اس کانگریس کی میزبانی کررہا ہے ۔ پہلی کانگریس 1983ء میں منعقد کی گئی تھی۔ انڈین سائنس کانگریس کا یہ 70 سیشن تھا۔ انڈین سائنس کانگریس ہر سال منعقد کی جاتی ہے تاکہ ملک میں سائنس کے کاز کو فروغ دیا جاسکے ۔تقریب میں گورنر ای ایس ایل نرسمہن،وزیراعلی چندرابابونائیڈو اور دوسرے موجود تھے ۔