تشکیل کے تین ماہ بعد بھی اقلیتی کمیشن دفتر سے محروم

صدرنشین کے قیامگاہ سے کارکردگی
حیدرآباد ۔ 3 ۔اپریل (سیاست نیوز) تلنگانہ میں اقلیتی اداروں سے حکومت کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی اقلیتی کمیشن تشکیل کے تین ماہ بعد بھی دفتر سے محروم ہے۔ اقلیتی کمیشن وہ واحد ادارہ ہے، جسے قانونی اختیارات حاصل ہے اور وہ اقلیتوں کے مسائل کی یکسوئی اور ناانصافی کی صورت میں تحقیقات یا پھر عہدیداروں کو طلب کرسکتا ہے ۔ اس قدر اہم اقلیتی ادارے کے ساتھ حکومت کا رویہ باعث افسوس ہے۔ کمیشن کے صدرنشین کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے حال ہی میں خیریت آباد میں واقع واٹر ورکس کامپلکس میں کمیشن کیلئے جگہ الاٹ کی ہے۔ تاہم دفتر کی تیاری کیلئے مزید ایک ماہ کا وقت لگے گا۔ اس وقت تک وہ اپنے گھر سے خدمات انجام دیں گے ۔ صدرنشین کمیشن محمد قمرالدین کے مطابق نئے دفتر کے آغاز کیلئے مزید ایک ماہ کا وقت لگے گا۔ ایسے میں اقلیتوں کو اپنے مسائل پیش کرنے کیلئے شائد ایک ماہ کا مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ سابق میں بی سی کمیشن کی تشکیل کے فوری بعد آفس الاٹ کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایس سی کمیشن کے لئے بھی علحدہ آفس موجود ہے جبکہ اقلیتی کمیشن گزشتہ تین ماہ سے دفتر سے محروم ہے اور کمیشن کے صدرنیشن کی دوڑ دھوپ کے بعد گزشتہ دنوں آفس کی جگہ الاٹ کی گئی ۔ گزشتہ دو ماہ سے مختلف مقامات پر جگہ الاٹ کرنے کا تیقن دیا جاتا رہا ۔ واضح رہے کہ 2 جنوری کو جی او ایم ایس نمبر 2 کے ذریعہ اقلیتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ آج 3 اپریل کو کمیشن کی تشکیل کے تین ماہ مکمل ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک مستقل دفتر سے محروم ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو اس ادارہ کی کارکردگی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اقلیتی کمیشن اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ناانصافیوں کے خاتمہ میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ اسی دوران کمیشن کے صدرنشین قمرالدین نے بتایا کہ کل 4 اپریل کو نرمل کا دورہ کرتے ہوئے گزشتہ دنوں پیش آئے ناخوشگوار واقعات کے متاثرین سے ملاقات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نرمل کے عوام کی جانب سے موصولہ نمائندگی پر کمیشن نے دورہ کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق جنوری میں 22 ، فروری میں 18 اور مارچ میں 25 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ زیادہ تر درخواستیں ملازمین کی معطلی ، عیسائیوں پر مظالم اور اراضیات پر قبضے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقل آفس کے آغاز کے بعد کمیشن کے کام کاج میں بہتری آئے گی۔