ترکی میں انتخابات ‘ اردغان کیلئے سخت آزمائش

استنبول۔7جون ( سیاست ڈاٹ کام ) ترک عوام نے آج انتہائی قریبی مسابقت والے انتخابات میں حق رائے دہی سے استفادہ کیا ۔ اسلامی بنیادیں رکھنے والی برسراقتدار پارٹی 13سال قبل اقتدار پر آئی تھی۔ اس کے صدر رجب طیب اردغان کیلئے یہ انتخابات سخت آزمائش ثابت ہوں گے جو اپنے لئے عظیم تر اختیار کا منصوبہ بنارہے ہیں ۔ انتخابات تشدد کے سایہ تلے منعقد کئے جارہے ہیں جب کہ دو افراد ہلاک اور دیگر کئی افراد زخمی ہوچکے ہیں ۔ کُردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کے ایک جلوس پر شمال مغربی دیاربکر پر جمعہ کے دن حملہ کیا گیا تھا جس میں دو افراد ہلاک اور دیگر کئی زخمی ہوگئے ۔ مراکز رائے دہی آج صبح پانچ بجے کھل گئے اور 2بجے دن بند ہوں گے ۔ تقریباً 53کروڑ 70لاکھ ترک رائے دہندے رائے دہی کے اہل ہیں ۔ اوپنین پولس کی پیش قیاسی ہے کہ برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی جس کی بنیاد اردغان نے رکھی تھی بیشتر ووٹ حاصل کرے گی لیکن ووٹوں میں اس کا حصہ نمایاں طور پر 2011ء کی رائے دہی کے بہ نسبت کم ہوگیا ہے ۔ کم از کم 50فیصد ووٹ کا اس کو گذشتہ رائے دہی میں فائدہ ہوا تھا ۔ ترکی کی معیشت پریشان کن نہیں رہی ۔ شرح ترقی میں تین فیصد کمی آئی ہے اور بیروزگاری میں بتدریج اضافہ ہورہاہے ۔ اندیشوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ عہدیداروں کا رجحان اردغان کی تائید میں ہے جو 2003ء سے 2014ء تک وزیراعظم ترکی رہ چکے ہیں ۔ بعد ازاں انہوں نے صدر ترکی کا عہدہ سنبھال لیا تھا جب کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات میں اضافہ دیکھا گیا اور ان کی توہین کرنے والے عوام پر مقدمات دائر کئے گئے ۔

ردغان چاہتے ہیں کہ اے کے پی دوتہائی اکثریت حاصل کرلیں جو اس بات کیلئے کافی ہوگی کہ ترکی کا دستور تبدیل کردیا جائے اور ایک نیا دستور پارلیمنٹ میں منظور کروایا جائے جو صدارتی نظام کی اجازت دیتا ہو ۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ اس سے جمہوریتوں جیسے فرانس اور برازیل کیلئے بہت کم کوئی فرق پیدا ہوگا اور پرانا دستور جو 1980ء کی فوجی بغاوت میں منظور کیا گیا تھا ‘ اس بات کا خوف پیدا کرتا ہے کہ ملک پر دوبارہ شخصی حکومت قائم ہوجائے گا ۔ تاہم اپوزیشن این ڈی پی کو توقع ہے کہ وہ چوتھے مقام پر رہے گی ۔اگر وہ جملہ ووٹوں کا 10فیصد بھی حاصل کرلے اور ترکی کی بدنام سخت گیر پارٹی کو شکست دے تو اپنے ارکان پارلیمنٹ زیادہ تعداد میں پارلیمنٹ روانہ کرسکے گی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسری سامراجی سیکولر جمہوریہ پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوسکتی ہے ۔ تیسرے مقام پر قوم پرست تحریک پارٹی آسکتی ہے جو اے کے پی کو ایک مخلوط حکومت قائم کرنے پر مجبور کردے گی ۔ بشرطیکہ اے کے پی برسراقتدار رہنا چاہے ۔2002ء میں برسراقتدار آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ اے کے پی مخلوط حکومت قائم کرے گی ۔ دیاربکر میں ایچ ڈی پی پر حملہ جس میں ایک بم جس کے اندر بال بیرنگ بھرے ہوئے تھے استعمال کیا گیا تھا جس کا مقصد اس پارٹی کی انتخابی مہم کو ناکام بنانا تھا جو ترک سیاست کے اصل دھارے کو تھوڑنے کی کوشش کررہی ہے ۔ انتخابات مہم زبردست انتشار پسند مہم ثابت ہوئی ہے ۔ اردغان نے اپنے حریفوں پر تمام سمتوں سے حملہ کیا ہے ‘ اس میں کئی غیر ملکی اخبارات و رسالے جیسے برطانیہ کا ’’ گارجین‘‘ اور امریکہ کا ’’ نیویار ٹائمز ‘‘ شامل ہیں ۔