تحریک عدم اعتماد ، کس کیلئے موقع ؟

صیاد نے کس ہشیاری سے اک رنگین پھندا ڈالا ہے
ہر شخص یہی کہہ کر خوش ہے اب کوئی اسیرِ دام نہیں
تحریک عدم اعتماد ، کس کیلئے موقع ؟
مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف لوک سبھا میں کل تحریک عدم اعتماد پر مباحث ہونے والے ہیں۔ اس تحریک پر رائے دہی بھی ہوگی ۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلہ پر ایک دوسرے کی تائید حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کردی ہے تو حکومت نے بھی اپنی حلیف جماعتوں کو اس تحریک کے مسئلہ پر متحد رکھنے کا عمل شروع کردیا ہے ۔ اس سلسلہ میں جہاں اپوزیشن کے خیمے میں ایک دوسرے سے مذاکرات چل رہے ہیں وہیں بی جے پی بھی اپنے طور پر حلیفوں کو متحد رکھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ شیوسینا سے بی جے پی کو اندیشے لاحق ہیں اور شیوسینا نے مسلسل حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے ارادے بھی واضح کردئے ہیں۔ شیوسینا نے کئی اہم مسائل پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اس نے وہی موقف اختیار کیا تھا جو اپوزیشن جماعتوں کا تھا ۔ بعض موقعوںپر تو شیوسینا نے اپوزیشن سے ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت کو نشانہ بنایا تھا ۔ اب تحریک عدم اعتماد کے مسئلہ پر اگر شیوسینا اپنے اسی تیور کو برقرار رکھتی ہے تو یہ حکومت کیلئے مسئلہ بن سکتا ہے ۔ حالانکہ حکومت کے استحکام اور اس کے بقا پر فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن یہ بات واضح ہوجائیگی کہ خود حکومت کی اور برسر اقتدار اتحاد کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے اور وہ انتشار کا شکار ہو رہا ہے ۔ اس کے برخلاف اگر تلگودیشم پارٹی اور شیوسینا حکومت کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو اپوزیشن کیلئے استحکام کی بات ہوگی کیونکہ یہ دونوں ہی جماعتیں این ڈی اے اتحادکا حصہ تھیں اورمرکزی وزارت میں بھی انہوں نے حصہ لیا تھا ۔ اب اگر یہ جماعتیں حکومت کی تائید نہیں کرتی ہیں تو اپوزیشن کو اس سے استحکام حاصل ہوگا اور حکومت کیلئے انتشار کی بات ہوگی ۔ تحریک عدم اعتماد در اصل حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کیلئے اپنے اپنے موقف کو مستحکم کرکے عوام سے رجوع ہونے کا موقع ہے ۔ تاہم یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ جو اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف عوامی سطح پر جدوجہد کرتی نظر آ رہی ہیں وہ ایوان میں کیا موقف اختیار کرتی ہیں۔ ان کا مباحث میں کیا موقف ہوتا ہے اور وہ ووٹ کس حق میں دیتی ہیں۔
کچھ وقت قبل تک یہ کہا جا رہا تھا کہ بہار میں این ڈی اے حکومت کی بڑی جماعت جے ڈی یو بھی حکومت سے ناراض ہے تاہم جوصورتحال اب پیدا ہوئی ہے شائد اسی کا اندازہ کرتے ہوئے امیت شاہ نے نتیش کمار کو منانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور جے ڈی یو ‘ این ڈی اے کے ساتھ ہی ہے ۔ حالانکہ لوک سبھا انتخابات یا مرکزی حکومت کا استحکام جے ڈی یو کیلئے اہم نہیں ہے اور اس کیلئے 2020 میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس اعتبار سے بھی جے ڈی یو کو این ڈی اے کے خلاف جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔ تلگودیشم کے ساتھ آندھرا پردیش کی وائی ایس آر کانگریس بھی حکومت کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرتی اور اس کا اس نے اعلان بھی کردیا تھا جب سابقہ سشن میں یہ تحریک پیش ہوئی تھی لیکن اس کے ارکان نے عملا درمیانی راہ تلاش کرلی ہے اور آندھرا پردیش کو خصوصی موقف کے مسئلہ پر وہ ایوان کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے اور اسپیکر نے ان کے استعفے قبول بھی کرلئے ہیں۔ اس طرح اپوزیشن کی عددی طاقت گھٹی ضرور ہے ۔ کچھ اور علاقائی جماعتیں بھی ہیں جو بی جے پی حکومت سے ناراض دکھائی دیتی ہیں جو این ڈی اے کا حصہ رہی تھیں ۔ اب یہ جماعتیں کس پہلو سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتی ہیںیہ بھی دیکھنے کی بات ہوگی جبکہ تلنگانہ کی برسراقتدار تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے حکومت کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کردیا ہے ۔ پہلے بھی وہ حکومت کے خلاف نہیں رہی تھی ۔
لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد اس بار عددی طاقت کے مظاہر ہ سے زیادہ اپنی اپنی صفوں میں اتحاد اور مخالف کی صفوںمیں انتشار کو واضح کرنے کا موقع ہے ۔ حکومت کو بھلے ہی اس تحریک سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو لیکن اس کی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی اگر آشکار ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کو اسے عوام کے سامنے پیش کرکے فائدہ حاصل کرنے کا موقع دستیاب ضرور ہوجائیگا ۔ اگر اپوزیشن ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ حکومت کیلئے مسئلہ پیدا کرنے والی بات ہوسکتی ہے ۔ حکومت اپنے طورپر اس تحریک کی ناکامی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریگی اور اپوزیشن کے اتحاد کو غیر اہم قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد دونوںہی فریقین کیلئے موقع ہے اور اب اس موقع سے کون سا فریق کتنا فائدہ حاصل کر پائے گا یہ اس کی اپنی کوششوں پر ہی منحصر ہے ۔