بے نظیر کے قتل میں دینی مدرسہ کے طلباء ملوث

اسلام آباد ۔ 27 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے سرکاری عہدیداروں نے آج عدالت سے کہا کہ 2007ء کے دوران سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں ’’بابائے طالبان‘‘ کے ثانوی نام سے مشہور و معروف ایک سرکردہ عالم دین کی طرف سے دہلی چلائے جانے والے دینی مدرسہ کے طلبہ ملوث ہیں۔ اس مقدمہ کی سماعت سیکوریٹی وجوہات کی بنیاد پر ردشیلہ جیل میں گذشتہ روز منعقد ہوئی۔ انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) راولپنڈی میں زیردوران اس مقدمہ کی سماعت جسٹس پرویز اسماعیل نے کی۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) پشاور کے انسپکٹر نصیراحمد اور سب انسپکٹر عدنان نے بے نظیر کی ہلاکت میں دارالعلوم حقانیہ کے طلبہ ملوث ہونے کے بارے میں عدالت کو مطلع کیا۔ دونوں سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات کی تائید میں متعلقہ ثبوت بھی پیش کئے۔ اس دوران دارالعلوم حقانیہ کے ناظم تعلیمات واصل احمد نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ مشتبہ خودکش بمبار عبداللہ عرف صوم نادر عرف قاری اسمعیل کے علاوہ گرفتار شدہ مشتبہ طلبہ رشید عرف ترابی اور فیض محمد نے اس دینی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی

لیکن انہوں نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ یہ مشتبہ افراد تعلیم کی تکمیل سے قبل ہی مدرسہ چھوڑ چکے تھے۔ یہ مدرسہ خیبرپختون خواہ کے نوشیرہ ضلع کے تحت اکورہ خٹک میں واقع ہے، جس کے مالک سمیع الحق ہیں۔ اس مدرسہ سے کل سرکردہ طالبان قائدین اور جنگجو ابھرے ہیں۔ جن میں خوفناک حقانی نیٹ ورک کا بانی جلال الدین حقانی بھی شامل ہے۔ اس مدرسہ کے طلبہ اپنے نام کے ساتھ حقانی استعمال کرتے ہیں۔ بابائے طالبان کے نام سے مشہور سمیع الحق نے کئی مرتبہ افغانستان کے نظامانصاف کی تائیدکی تھی اور کئی مرتبہ پاکستان پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں حتیٰ کہ اب بھی وہ اس ٹیم کی قیادت کررہے ہیں جو پاکستانی طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ بے نظیر بھٹو 27 اکٹوبر 2007ء کو راولپنڈی میں اپنی پاکستانی پیپلز پارٹی کے انتخابی جلسہ عام سے خطاب کے موقع پر بیک وقت اندھادھند فائرنگ اور خطرناک خودکش بم دھماکہ میں فوت ہوگئی تھیں۔