اردو یونیورسٹی میں خوف کا ماحول، وائس چانسلر کی میعاد کیلئے ایک ہفتہ باقی،شمالی ہند کا غلبہ برقراررکھنے کی کوشش
حیدرآباد ۔4 ۔مئی (سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی میعاد کے اختتام کو صرف ایک ہفتہ باقی ہے لیکن وہ اپنی میعاد کی تکمیل سے قبل اہم فیصلوں کی عمل آوری میں مصروف ہوچکے ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ اپنے قریبی ماتحت عہدیداروں پر وائس چانسلر مختلف فیصلوں پر عمل آوری کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ میعاد کی تکمیل کے بعد بے قاعدگیوں کے الزامات سے خود کو بچایا جاسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک طرف وائس چانسلر اپنے من مانی فیصلوں پر یونیورسٹی کی مہر تصدیق ثبت کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف بے قاعدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ وائس چانسلر نے حالیہ اگزیکیٹیو کونسل کے اجلاس میں کئی متنازعہ فیصلوں کو ایجنڈہ میں رکھتے ہوئے ان کی منظوری حاصل کرلی۔ اگزیکیٹیو کونسل کے بعض ارکان نے ایجنڈہ میں شامل بعض امور پر اعتراض جتایا لیکن وائس چانسلر کے دباؤ کے آگے ان کی ایک نہیں چلی۔ آخر کار انہیں وائس چانسلر کے دباؤ میں ان کی مرضی کے مطابق فیصلوں کو منظوری دینی پڑی۔ اگر اگزیکیٹیو کونسل سارے ایجنڈہ کو منظوری نہ دیتی تو ممکن تھا کہ وائس چانسلر کی میعاد کے اختتام کے بعد ان کے فیصلوں پر سوال کھڑے ہوتے۔ بتایا جاتا ہے کہ وائس چانسلر نے حالیہ عرصہ میں یونیورسٹی کی بے قاعدگیوں اور ان کی من مانی کے خلاف آواز بلند کرنے والے بعض ملازمین کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اپنی میعاد کی تکمیل سے قبل کارروائی کا عمل مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے جانے کے بعد بھی یونیورسٹی پر شمالی ہند کے افراد کا غلبہ برقرار رہے۔ بتایا جاتاہے کہ قواعد کی خلاف ورزی کے سلسلہ میں اعتراض کرنے والے بعض اہم افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے۔ الزامات کی جانچ کے نام پر برائے نام تحقیقات کی گئیں اور وضاحت کا کوئی موقع دیئے بغیر اور ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود ان افراد کو قصوروار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بتایا جاتاہے کہ 13 مئی سے قبل وائس چانسلر اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کی تکمیل کرلیں گے۔ وائس چانسلر کے اس رویہ سے ایک طرف یونیورسٹی کے اسٹاف میں بے چینی پائی جاتی ہے تو دوسری طرف کئی افراد خوف اور اندیشہ کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض ڈپارٹمنٹس کے ملازمین اور ذمہ داروں نے وائس چانسلر کی کارروائی سے بچنے کیلئے چھٹی لگادی ہے۔ یونیورسٹی کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ تمام امور صرف وائس چانسلر کے اطراف گھوم رہے ہیں اور کوئی بھی شخص کسی بھی فیصلہ پر اعتراض کی ہمت نہیں کرسکتا کیونکہ ہر کسی کو اپنی ملازمت عزیز ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں جن چار پروفیسرس کے نام سے وضاحت بیان جاری کیا گیا تھا، ان میں تین کا تقرر یونیورسٹی کے قواعد کے خلاف ہے کیونکہ تینوں غیر اردو داں ہیں۔ ایک پروفیسر کو اردو داں ثابت کرنے کیلئے ایک ادارہ کے اردو امتحانات میں کامیابی کی ڈگری پیش کی جارہی ہے۔ اس پروفیسر کو 9 سال سے ڈین کے عہدہ پر برقرار رکھا گیا جبکہ قواعد کے مطابق اس عہدہ کی میعاد تین سال ہوتی ہے اور روٹیشن کی بنیاد پر تقرر کیا جاتا ہے لیکن تین میعادوں سے ایک ہی پروفیسر کو اس عہدہ پر برقرار رکھنا سوالیہ نشان ہے۔ ایک پروفیسر جو ایک اہم ادارہ کے ڈائرکٹر ہیں، غیر اردو داں ہونے کے سبب انگریزی میں تعلیم دے رہے ہیں جس کے سبب طلبہ کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ ایک اور پروفیسر کو تقرر سے ایک ماہ قبل نااہل قرار دیا گیا تھا لیکن دوسرے ہی ماہ ان کا تقرر کردیا گیا۔ اس طرح ایسے پروفیسرس جن کے تقررات میں کئی خامیاں ہیں ، انہیں یونیورسٹی کی تائید میں مہم چلانے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ وائس چانسلر کے حواریوں کا ایک ٹولہ روزآنہ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رجوع ہوکر یونیورسٹی کے خلاف بیان دینے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قومی جماعتوں کے قائدین سے ربط پیدا کرتے ہوئے مقامی قائدین کو یونیورسٹی کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکنے کیلئے دباؤ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وائس چانسلر کے حواریوں کا یہ ٹولہ مختلف اخبارات کے دفاتر سے رجوع ہوکر یونیورسٹی کی بے قاعدگیوں کو شائع نہ کرنے کی اپیل کر رہا ہے۔