ایک بادشاہ لاولد تھا، جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، اُسے میری جگہ بادشاہ بنادیا جائے اور شاہی تاج اُس کے سر پر رکھتے ہوئے مملکت کو اس کے حوالے کردیا جائے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ فقیر تھا، جس کی ساری زندگی بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند لگاتے گزری تھی۔
امراء ووزراء نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس کو بادشاہ بنادیا۔ تاج اس کے سَر پر رکھ کر ملک اور خزانے اس کے حوالے کردیئے۔ فقیر شاہانہ زندگی گزارنے لگا۔ مگر یہ دنیا ہے، جہاں حاسد اور بد خواہ لوگ کسی کو آرام سے زندگی گزارنے نہیں دیتے۔ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کچھ امراء اور وزراء نے سازش کرکے اس ملک پر حملہ کرادیا اور حملہ آوروں نے مملکت کا بہت سارا حصہ فتح کرلیا۔ اس ناگہانی حادثے کی وجہ سے فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔اسی اثناء میں اس کا ایک پرانا دوست جو فقیری کی حالت میں اس کے ساتھ رہتا تھا، سفر سے واپس آیا تو اس نے اپنے دوست کے بادشاہ بننے کی خبر سنی۔ وہ ملاقات کیلئے آیا اور کہنے لگا خدا کا شکر ہے جس کے فضل و کرم نے تجھے بادشاہ بنادیا۔ یہ سب اس کی قدرت کے کھیل ہیں۔ فقیر بادشاہ نے کہا میرے بھائی! یہ کوئی خوشی کی بات نہیں بلکہ رونے کا مقام ہے۔ کل جبکہ میں فقیر تھا تو مجھے کوئی غم نہ تھا لیکن آج جبکہ میں ایک بادشاہ ہوں مجھے اِک جہان کی فکر لاحق ہے۔نصیحت :’’ فقیری میں بادشاہی اور بادشاہی میں فقیری ہے‘‘
٭٭٭٭٭