بی پی ایل کے ہزارہا مکانات مخلوعہ، حکومت کا معاندانہ رویہ

نئے ڈبل بیڈ روم فراہم کرنے کا اعلان، مختلف اسکیمات کے مکانات بنیادی سہولتوں سے محروم

حیدرآباد 27 ستمبر (سیاست نیوز) مرکزی و ریاستی حکومتوں کی مختلف اسکیمات جیسے جواہرلال نہرو نیشنل اربن رینول مشن (جے این این یو آر ایم) ، راجیو گروہا کلپا (آر جی کے) اور وامبے (والمیکا امبیڈکر یوجنا) کے تحت بی پی ایل خاندانوں کے لئے تعمیر کردہ مکانات استفادہ کنندگان کو فراہم نہ کئے جانے کے باعث گزشتہ 15 سالوں سے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ ذرائع کے بموجب ایک اندازہ کے مطابق تلنگانہ علاقہ میں گزشتہ 9 برسوں کے دوران تقریباً 64 ہزار 300 مکانات جے این این یو آر ایم کے تحت تعمیر کئے گئے ہیں جس میں سے 45 ہزار 945 مکانات استفادہ کنندگان کے حوالے کئے گئے جبکہ مابقی 18 ہزار 355 مکانات خالی پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح 8 ہزار 90 ہزار تعمیرات کے مرحلہ میں ہیں۔ اسی دوران وامبے اسکیم کے تحت 6 ہزار 36 مکانات میں سے 3 ہزار 968 مکانات استفادہ کنندگان کے حوالے کیا جانا باقی ہے جبکہ 2 ہزار 250 مکانات تعمیرات کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ 22 ہزار 324 مکانات استفادہ کنندگان کو حوالے کیا جانا باقی ہے۔ ایک اطلاع کے بموجب امو گوڑہ میں وامبے مکانات کی تعمیر کے لئے سال 2001 ء میں سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اب جبکہ 15 سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے اس کو تاحال تکمیل نہیں کیا گیا۔ 14 بلاکس میں G+3 کے حساب سے 40 یونٹس میں 550 مکانات کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ ہر ایک بلاک کے پلرس، چھت اور اینٹ کا کام تقریباً مکمل کرلیا گیا جبکہ مکانات کو استفادہ کنندگان نے حاصل نہیں کیا ہے۔ ان مکانات کے دروازوں اور کھڑکیوں کا سرقہ کرلیا گیا۔ چند غریب افراد خاندانوں نے گراؤنڈ فلور کے مکانات میں منتقل ہوگئے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ ایک چھوٹے سے کمرہ میں ایک خاندان کے9 افراد مقیم ہیں۔ اس میں کچن اور باتھ بھی ہے۔ اس مکان میں مقیم خاندان آٹو ڈرائیور کے ساتھ بیوی،بچے، بھائی اور والدین بھی ہیں جن کی زندگی صرف ایک مکان کی حد تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ بستی کے لیڈرس نے بتایا کہ یہاں کا کئی لیڈرس جیسے سائنا، اے راجندر، سروے ستیہ نارائنا، کے ریڈی رکن اسمبلی اور رکن کونسل این رامچندر راؤ نے کئی مرتبہ دورہ کیا۔ اس کے باوجود نہ تو مکانات کی تعمیر مکمل کی گئی اور نہ ہی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ جبکہ ایک پیشہ ورانہ شخص کا کہنا ہے کہ ماچس ٹائپ کے مکانات افراد خاندان کے لئے نا مناسب ہیں۔ جبکہ اینٹ کا کام بھی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کیا گیا۔ اسی طرح جس سمنٹ سے مکانات کی ٹھیک طریقہ سے تعمیر عمل میں نہیں لائی گئی ہے مکانات کے کئی مقامات پر سوراخ ہوگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے اپارٹمنٹس کے ذریعہ ڈبل بیڈ روم کے فلیٹس کو کم شرح قیمت پر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک اور مقامی شخص کا کہنا ہے کہ تمام 14 بلاکس کے دیواروں کو منہدم کرکے دو دو بلاکس کو یکجا کرکے ڈبل بیڈ روم فلیٹس کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ ٹی آر ایس حکومت ایک لاکھ 25 ہزار روپیوں کے حساب سے 5 کروڑ روپیوں میں 250 مکانات کو بہتر اور عصری طریقہ سے تعمیر کرتے ہوئے تمام بنیادی سہولتیں فراہم کریں تو مناسب ہوگا۔ جبکہ ایک سرکاری عہدیدار نے یہاں کے مسائل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ کئی مسائل کو ہنوز حل کیا جانا باقی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کام کے لئے فنڈس کی ضرورت ہے۔ اگر ریاستی یا پھر مرکزی حکومتیں فنڈس منظور کرتی ہیں تو اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس دوران سکریٹری فار سنٹر فار گڈ گورننس مسٹر ایم پدمانابھا ریڈی نے بھی بتایا کہ اس پر عمل کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے کیوں کہ مکانات کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ جبکہ سی پی آئی (ایم) کے سٹی سکریٹری مسٹر ایم سرینواس نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے بڑے زور و شور سے ہاؤزنگ کالونی کا اعلان کیا اور اس کی خوب تشہیر کی۔ اب اس کی صورتحال ایسی ہے کہ تقریباً 23 ہزار مکانات کو استفادہ کنندگان نے حاصل نہیں کیا۔ جبکہ یہ ریاست کے دارالحکومت میں واقع ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے 23 ہزار ڈبل بیڈ روم کے مکانات کی فراہمی کا تیقن دیا ہے لیکن موجودہ نامناسب حالات کا شکار 23 ہزار مکانات کی طرف کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔