آندھرا پردیش میں برسر اقتدار تلگودیشم پارٹی اور مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کے مابین اتحاد ایسا لگتا ہے کہ اپنے اختتام کی سمت بڑھ رہا ہے ۔ دونوں جماعتوں کے تعلقات اور رشتوں میں مرکزی بجٹ کے بعد سے تلخیاں بڑھنے لگی ہیں۔ تلگودیشم پارٹی مرکز سے ریاست کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز حاصل کرنے کے مقصد سے اتحاد کو برقرار رکھی ہوئی تھی ۔ پارٹی کو امید تھی کہ مرکز سے اضافی فنڈز کے حصول میں کامیابی پر اسے ریاست میں ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اقتدار کو آئندہ انتخابات میں بچانے کا موقع مل سکتا ہے ۔ ریاست میں پہلے ہی اس بات پر ناراضگی پائی جاتی ہے کہ مرکز نے تنظیم جدید آندھرا پردیش قانون کے مطابق ریاست کو خصوصی زمرہ کا موقف نہیں دیا ہے ۔ اس کے تحت ریاست کو کئی طرح کے فوائد مل سکتے تھے لیکن مرکزی حکومت نے بتدریج اس مطالبہ کو پس پشت ڈالنا شروع کیا تھا اور پھر اسے برفدان کی نذر کردیا گیا ۔ درمیان میں ریاست کیلئے خصوصی پیکج کی بات کی گئی اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی صرف ایک جملہ ہی بن کر رہ گئی ہے ۔ مرکزی بجٹ میں آندھرا پردیش کیلئے جو فنڈز الاٹ کئے گئے تھے وہ بھی ناکافی تھے اور اسی وجہ سے تلگودیشم میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے ۔ پارٹی کا خیال ہے کہ اگر وہ اب بھی بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار نہ کرے تو آئندہ انتخابات میں اسے عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ آندھرا پردیش کے عوام اپنے مطالبات اور ریاست کی ترقی کے تعلق سے کافی فکرمند ہوتے ہیں۔ انہیں ریاست کو مرکز سے کئی طرح کی مراعات اور سہولیات ملنے کی امید تھی لیکن یہ امیدیں بتدریج دم توڑنے لگی ہیں۔ مرکزی حکومت کا رویہ آندھرا پردیش کے ساتھ منصفانہ نہیں کہا جاسکتا اور اس کو ریاست میں اصل اپوزیشن جماعت وائی ایس آر کانگریس اور خود کانگریس بھی عوام میں پیش کر رہی ہیں۔ مرکز کے خلاف عوام کی برہمی کی لہر میں تلگودیشم پارٹی بھی متاثر ہوسکتی ہے اسی وجہ سے تلگودیشم نے مرکز کے خلاف ناراضگی ظاہر کی اور اب بی جے پی بھی ایسا لگتا ہے کہ تلگودیشم سے دوری بنانے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوچکی ہے اور وہ بھی چندرابابو نائیڈو حکومت کے خلاف کمر کس رہی ہے ۔
بی جے پی نے آندھرا پردیش حکومت کو مدافعانہ موقف اختیار کرنے مجبور کرنے کیلئے رائلسیما کا مسئلہ چھیڑ دیا ہے ۔ آندھرا پردیش میں ویسے ہی عوام کے جذبات مجروح ہیں اور اب اگر رائلسیما سے ناانصافی کا مسئلہ چھیڑا جاتا ہے تو پھر رائلسیما کے عوام میں بھی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے بی جے پی اس کو موضوع بنا رہی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ تلگودیشم کو آندھرا پردیش میں کمزور کرنے کیلئے رائلسیما علاقہ میںاس کے تعلق سے مخالفانہ جذبات کو ہوا دینا ضروری ہے اور اس کیلئے علاقائی جذبات کے استحصال سے اچھا کوئی اور طریقہ بی جے پی کو نظر نہیں آیا ہے ۔ تلگودیشم اور بی جے پی دونوں نے ہی ایک دوسرے سے گذشتہ عام انتخابات کے وقت محض اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت اتحاد کیا تھا ۔ تلگودیشم کو بی جے پی کی لہر کا اندازہ تھا اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی اسی لئے اس نے بی جے پی سے اتحاد کیا اور انتخابات میں فائدہ بھی حاصل کیا ۔ ایک طرح سے تلگودیشم نے بی جے پی سے اتحاد کرتے ہوئے آندھرا پردیش میں اس کے استحکام کی حد بندی کردی تھی اور اسے زیادہ پنپنے کا موقع نہیں دیا تھا ۔ دوسری طرف بی جے پی کو صرف ریاست کی نہیں بلکہ سارے ملک کی فکر تھی اور اس نے مستقبل میں ایک مضبوط حلیف جماعت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تلگودیشم سے اتحاد کیا تھا ۔ اب ایسا موقف ہے کہ بی جے پی کو قومی سطح پر تلگودیشم کی اور تلگودیشم کو ریاستی سطح پر بی جے پی کی زیادہ ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔ ایسے میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے پیچھا چھڑانے ہی میں اپنی عافیت محسوس کرنے لگی ہیں۔
تلگودیشم کو بجٹ میں ناکافی رقومات کی وجہ سے بی جے پی کے خلاف آواز اٹھانے کا موقع مل گیا ۔ بی جے پی اسی طرح کے کسی موقع کی منتظر تھی اور اب اس نے رائلسیما سے ناانصافی کا ایک مسئلہ بنانے کی کوشش شروع کردی ہے ۔ علاقائی جذبات کی اہمیت کے پیش نظر بی جے پی کو امید ہے کہ وہ یہاں تلگودیشم سے عوام کو بدظن کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اسے اپنے قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ جب عوامی جذبات میں اشتعال پیدا ہوگا تو دوسری جماعتیں کانگریس اور وائی ایس آر کانگریس بھی اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرینگی تاہم بی جے پی تلگودیشم کو آندھرا پردیش سے ناانصافی کے مسئلہ پر بی جے پی کے خلاف پروپگنڈہ سے باز رکھنے کی کوشش کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے سے اتحاد اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت کیا گیا تھا اور اب اپنے اپنے فائدہ کیلئے دوریاں بنائی جا رہی ہیں۔