ان کی زباں دراز ہے کوئی عمل نہیں
باتوں سے بہل جانے کے اب دن گذر گئے
بی جے پی وزراء کی زبان درازی
بی جے پی حکومت کو اقتدار ملنا اس بات کا لائسنس نہیں ہے کہ وہ اپنے وزراء اور لیڈروں کو بے لگام چھوڑ کر عوام کی توہین کرنے لگیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے نیچے کے لوگ اپنی زبان درازی کے ذریعہ خود اپنے آقاؤں کے سیاسی مستقبل و عزائم کو گہن زدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مرکز کی وزارت میں شامل ہر لیڈر خود کو تمام سے بالاتر محسوس کرنے لگا ہے۔ مملکتی وزیر فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز نرنجن ساھوی جیوتی نے دہلی اسمبلی انتخابات کیلئے جاری انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے رائے دہندوں کے خلاف بیہودہ ریمارک کیا اور امیدواروں کو توہین آمیز الفاظ سے مخاطب کیا۔ دل آزار الفاظ میں اظہارخیال کرکے نرنجن جیوتی نے زعفرانی تہذیب کے مطابق اپنے خیالات سامنے رکھے ہیں لیکن وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے ماہ مئی میں اقتدار سنبھالنے کیلئے حلف لیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ ہندوستان کے ایک سو پچیس کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں تو انہیں چاہئے کہ کابینہ کے زبان دراز یا بدتمیز وزراء کو سبق سکھائیں تاکہ ان کی حکومت پر اپوزیشن کی اٹھتی انگلیوں کو روکا جاسکے۔ وزیراعظم مودی نے اگرچیکہ نرنجن جیوتی کے ریمارک پر ناراضگی ظاہر کی ہے لیکن ان کے خلاف سخت کارروائی سے گریز کیا۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے ایم پی تپس پال نے گھٹیا ریمارک کئے تھے اور معافی مانگ لی تھی۔ نرنجن جیوتی بھی اپنے بیان پر ندامت ظاہر کی ہے اور معافی بھی مانگ لی ہے مگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک کلین امیج بنائے رکھنے کی کوشش کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کو ملک کے سامنے بہترین مثال پیش کرنی چاہئے اور نرنجن جیوتی سے استعفیٰ طلب کرلیں۔ بی جے پی میں اس طرح کا کردار رکھنے والے قائدین کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنی چرب زبانی اور توہین آمیز ریمارک کے ذریعہ معاشرہ میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران بی جے پی کے قائدین نے جس طرح کا فرقہ وارانہ کشیدہ ماحول تیار کرنے کی شروعات کی ہے آگے 4 سال کے دوران حالات کیا بھیانک رخ اختیار کریں گے یہ ناقابل قیاس ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی پارٹی کے قائدین کو حد سے تجاوز ہوکر بیان نہ دینے کی ہدایت دی ہے۔ اگر ان کی ہدایت پر عمل ہوتا ہے تو آگے چل کر کوئی بی جے پی لیڈر اپنے وزیراعظم کی ہدایات کی خلاف ورزی نہ کرتا ہے تو یہ درست بات ہوگی لیکن وزیراعظم کے نرمی اختیار کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ انہیں اپنی حکومت کے امیج کو مسخ ہونے سے بچانے کیلئے نرنجن جیوتی جیسے وزراء کو برطرف کرنا ہوگا۔ ایک فطری عمل ہے کہ انسان ہو یا کوئی ریاست یا ملک اندر سے کمزور پڑجائے یا بے ہودگی کا تاثر دے تو ہر بیماری ہر مصیبت اس کا رخ کرتی ہے۔ بی جے پی کو عوام نے جس جوش سے ووٹ دیا تھا اب انہیں اپنی غلطی کا احساس دلانے والی حرکتیں کرکے بی جے پی قائدین پارٹی کا مستقل خسارہ کرنے جارہے ہیں۔ بی جے پی،انتخابات میں پے در پے کامیابی حاصل کرکے اس گمان میں ہے کہ اب وہ ناقابل تسخیر سیاسی قلعہ بن چکی ہے۔ دہلی اور جموں و کشمیر یا جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں اسے زبردست کامیابی ملے گی، عوام نے حالیہ تبدیلیوں کو گر نوٹ کیا ہے تو بی جے پی کو ووٹ دینے سے قبل مکرر غور کریں گے اگر غور نہیں کیا تو یہ انتخابات بھی بی جے پی کو مزید ہٹ دھرم اور بدمست بنا کر چھوڑ دیں گے۔ ملک کے موجودہ اور آنے والے حالات کا اندازہ کرنے والوں کو یہ تشویش لاحق ہوگئی ہیکہ فرقہ پرستوں کی جانب سے ملک کا بہت برا حال کیا جائے گا۔ ہندوستان کے سب سے بڑے سرمایہ کار گروپ کیلئے بھی یہ بات فال نیک نہیں ہے کہ ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دینے والے جیسے حالات پیدا کردیئے جائیں۔ جن کارپوریٹ گھرانوں نے اپنی دولت کے ذریعہ مودی حکومت کو اقتدار تک پہنچایا ہے انہیں آئندہ مختلف قسم کے خدشات کا شکار ہونا پڑے گا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے تو حکومت کو اپنے بدزبان وزراء کو سبق سکھانے میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اگر ایک کامیاب وزیراعظم بننے کی آرزو ہے تو تنہائی میں اپنی کمزوریوں اور پارٹی قائدین کی زہرافشانی کا احاطہ کرنا ہوگا اور پھر ان کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی انتہائی قابل آدمی کو تلاش کرکے اسے اپنا مشیر بنانا چاہئے ورنہ انہیں امیت شاہ اور ان کے چیلوں کی زبان درازی کے نتیجہ میں جو محرکات و اثرات حکومت پر مرتب ہوں گے اس کے لئے ان کے بشمول تمام بی جے پی قائدین ذمہ دار ہوں گے۔ ہندوستانی عوام جس کو چاہتے ہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ راجیو گاندھی کو بھی ہندوستان بھر سے بھاری اکثریت سے منتخب کیا گیا تھا ان کی حکومت مضبوط اپوزیشن کے بغیر قائم ہوئی تھی اور وقت آنے پر راجیو گاندھی کو بھی عوام نے مسترد کردیا تھا۔ بی جے پی حکومت تو صرف چند عدد زائد نشستوں کے ذریعہ اقتدار تک پہنچی ہے عوام کے غیض و غضب سے بچانا ضروری ہے۔